سوال (385)
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حاملہ بھی ہو، تو اس کی عدت کیا ہے؟
جواب
ویسے جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
“وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا”. [البقرة: 234]
’’تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑیں تو وہ چار ماہ دس دن عدت گزاریں گی‘‘۔
لیکن اگر عورت حاملہ ہو تو پھر اس کی عدت وضع حمل ( یعنی بچے کی پیدائش) ہی ہو گی، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
“وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ”. [الطلاق: 4]
’’حاملہ عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے‘‘۔
اسی طرح مشہور تابعی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جبکہ اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آنے والے نے مسئلہ پوچھا کہ آپ مجھے اس عورت کے متعلق بتائیے جس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس راتیں بعد بچہ جنم دیا ہو؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا:
“آخِرُ الْأَجَلَيْنِ”.
’’اس کی عدت دونوں عدتوں میں دور تر، یعنی طویل تر عدت ہے‘‘۔
جبکہ میں (ابو سلمہ) نے کہا:
“وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ”. [الطلاق: 4]
’’حاملہ عورتوں کی عدت وضعِ حمل ہے‘‘۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اپنے بھتیجے، (ابو سلمہ) کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کریب کو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں یہ مسئلہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا، ام المومنین نے بتایا :
“قُتِلَ زَوجُ سُبَيعةَ الأسلَمِيَّةِ وهي حُبلى، فوَضَعَت بعد موتِه بأربعينَ ليلةً، فخُطِبَت، فأنكَحَها رَسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم”. [صحيح البخارى:4909]
’’سُبیعہ اسلمیہ رضي الله عنها کے شوہر شہید کر دیے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت حاملہ تھیں۔ شوہر کی وفات کے چالیس راتوں بعد انہوں نے بچہ جنم دیا، پھر ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح کر دیا‘‘۔
ابن المنذر، ابن قدامۃ، ابن تیمیہ وغیرہ کئی ایک اہل علم نے ان مسائل پر اجماع نقل کیا ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
حاملہ کی عدت وضع حمل ہی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔
“و أولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن”
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
سائل: بیوہ اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت کیا ہے؟ اور یہ بتائیں کہ حاملہ مطلقہ کی عدت میں کوئی فرق ہے؟
جواب: کوئی فرق نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سوال: حاملہ عورت کی عدت کے متعلق پوچھنا تھا موطا امام مالک میں نو ماہ اور اس کے بعد تین ماہ پھر کیا اس کی عدت صرف وضع حمل نہیں ہے؟
جواب: حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، جب اللہ تعالٰی نے فیصلہ فرمادیا ہے، تو کسی بھی امام کے قول کی ضرورت نہیں ہے، نہ ہی اقوال کی حیثیت رہتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
حمل کی مدت زیادہ سے زیادہ 9 ماہ ہے اور کم سے کم ایک منٹ بھی ہو سکتی ہے۔ اس دوران جب پیدائش ہوجائے وہ وضع حمل ہے۔
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ
سائل: جی بالکل درست ہے اور اس میں یہ لکھا ہے کہ وضع حمل کے بعد پھر تین ماہ عدت ہے؟
جواب: سورہ طلاق کی ابتدائی آیات کو پڑھ لیں، نص موجود ہے، قرآن کریم کے فیصلے کے بعد تو کسی قول کی حیثیت نہیں رہتی ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ