سوال (4977)
میری بیوی پانچ ماہ سے حاملہ ہے، ہر تین ہفتے بعد ڈاکٹر کے پاس جا کر چیک اپ کرواتے رہے۔ پانچویں مہینے میں “anomaly scan” کروایا گیا تو رپورٹ میں درج ذیل خرابیاں بتائی گئیں: بچے کے پیٹ کے اندر پانی جمع ہے، بچے کے سر اور گردن پر پھوڑے (abnormal growths) ہیں، بچے کا سر بہت بڑا ہے، ہاتھ پاؤں نارمل سائز سے بہت چھوٹے ہیں، بچہ مکمل طور پر نارمل نہیں ہے، جسمانی خرابیاں ہیں، اگر نو مہینے گزر بھی گئے تو اسکا زندہ رہنا بہت مشکل ہے، ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بچے کو ضائع کرنا ضروری ہے، ورنہ ماں کی جان کو خطرہ ہے (پیٹ میں زہر پھیلنے کا امکان ہے)، اس صورت میں کیا حمل کو ضائع کروانا شرعاً جائز ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
جواب
آج کل مشینیں کچھ بتاتی ہیں، ڈاکٹرز کچھ بتاتے ہیں، اس لیے آج کل جدید قسم کے لوازمات سے بغیر ضرورت فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے، آج کل رواج ہوگیا ہے کہ الٹراساؤنڈ ہونا چاہیے، جینڈر کا پتا چلے، یہ خدائی کام میں مداخلت والی بات ہے، بعض اوقات وہ کچھ بتاتے ہیں، ہوتا کچھ اور ہے، اس لیے اللہ تعالٰی پر توکل کریں، یہی آ کر ہماری توحید کا پتا چلتا ہے، بندے کو اللہ کافی ہے، لیکن کئی ڈاکٹرز نے کہا ہو، آخری معاملہ یہاں تک پہنچا ہو کہ اس کو بچانا ہوگا تو ماں نہیں بچے گی، اس پر دو عادل ڈاکٹرز گواہی دیں تو پھر ماں کو بچانا ہوگا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: یہی واقع شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے پاس آیا تھا، شیخ صاحب کو کہا گیا ہے کہ ڈاکٹرز نے نوے فیصد بچے کو نہ بچنے کا بتایا ہے، صرف پانچ یا دس فیصد بتایا ہے کہ چانس ہیں تو شیخ صاحب نے کہا ہے کہ آپ پانچ فیصد پر ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کریں، توکل تو یہ ہے، کچھ ماہ بعد وہ شخص آیا اور کہا ہے کہ میری بیگم نے بچے کو جنم دیا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔
جواب: توکل ہو جائے تو توکل سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے، کبھی کبھار ڈاکٹرز کہتے ہیں غالبا ماں کو مرنے کا خدشہ ہے تو اس وقت ماں کو بچایا جائے گا، توکل عزیمت ہے، اگر کوئی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بدلہ دے گا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ