یہ ڈائیلاگ انجینیئر محمد علی مرزا صاحب کی ویڈیو بعنوان حق چار یار کے ماننے والے منافق پہ میری رائے ہے۔ انکی مکمل گفتگو کے ترتیب وار چھوٹے ٹکڑے (اشکال) بنا کر ہر ایک پہ رائے درج ذیل ہے:
اشکال نمبر 1
جو حق چار یار کے ماننے والے ہیں آج ہم انکو بتاتے ہیں کہ تم چار یاروں کو ماننے والے نہیں تم تو صرف تین یاروں(ابو بکر عمر عثمان) کو ماننے والے ہو وہ بھی صرف زبانی حد تک اصل میں تم اپنے ماموں( معاویہ) کو ماننے والے ہو اگر حق چار یار زندہ باد ہے تو حق چار یار کے خلاف کھڑے ہونے والے ( معاویہ) زندہ باد نہیں ہو سکتے سمپل ہے (یعنی سادہ اور کامن سینس کی بات ہے)
میری رائے
پیشگی معذرت مگریہ منطق کم علمی یا پھر تجاہل عارفانہ ہے کیونکہ جب کسی کو زندہ باد کہا جاتا ہے تو وہ ہر لحاظ سے نہیں کہا جا رہا ہوتا بلکہ وہ انسان ایک یا زیادہ لحاظ سے غلط بھی ہو سکتا ہے جیسے طائف سے واپسی پہ نبی ﷺ کو پناہ دینے والے مطعم بن عدی مشرک ہی مرے مگر نبی ﷺ نے انکی وفات کے بعدبھی انکو زندہ باد کہا وہ ایسے کہ بدر کے قیدیوں میں چچا عباسؓ کی وجہ سے نبی ﷺ تکلیف میں تھے مگر عباسؓ کی سفارش پہ انکو نہیں چھوڑا لیکن بخاری میں ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ آج مطعم ہوتا اور سفارش کرتا تو میں سارے قیدی چھوڑ دیتا۔ یہاں مطعم کو عباسؓ کے مقابلے میں شان دینے (زندہ باد کہنے) کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اسکو ہر لحاظ سے زندہ باد کہ دیا اسی طرح کوئی اہل سنت معاویہؓ کو علیؓ کے سامنے کھڑا ہونے پہ کبھی زندہ باد نہیں کہتا بلکہ غلط ہی کہتا ہے البتہ باقی فتوحات ، قسطنطنیہ پہ حملہ، کاتب وحی اور صحابیت وغیرہ پہ زندہ باد کہتا ہے۔ دوسرا اس منطق سے خالی معاویہؓ نہیں بلکہ درپردہ عائشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ سمیت بہت سے صحابہ معطون ہو گئےکیونکہ یہ سب بھی تو علیؓ کے خلاف کھڑے ہوئے تھے تو کیا درپردہ آپ ان سب کو زندہ باد کی بجائے مردہ باد کہلوانا چاہتے ہیں یہ منطق اتنی خطرناک ہے کہ اگر ملعون ناصبی نے اہل بیت پہ اپلائی کرتے ہوئے کہ دیا تم بھی حق چار یار والے نہیں کیونکہ حق چار یار والے ہوتے تو ان چاروں میں پہلےکے خلاف کھڑے ہونے والی فاطمہؓ کو زندہ باد نہ کہتے کیونکہ فاطمہؓ و علیؓ بھی تو ابو بکرؓ کے خلاف کھڑے ہوئے تھے جیسا کہ بخاری میں ہے:
فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الأَشْهُرَ فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ
(اس پر فاطمہؓ ابوبکرؓسے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی ۔ فاطمہؓ آنحضور ﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علیؓ نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابو بکرؓ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی ۔ فاطمہؓ جب تک زندہ رہیں علیؓ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں ۔ تب انہوں نے ابو بکرؓ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا چاہا ۔ پہلے چھ ماہ تک انہوں نے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکرؓ کو بلا بھیجا)
اگر آپ کہیں کہ فاطمہؓ طاقت کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی تو ناصبی ملعون کہ سکتے ہیں کہ جب کوئی کسی کے خلاف کھڑا ہو گا تو طاقت کے مطابق ہی کھڑا ہو گا یعنی کم طاقت میں کھڑا نہیں ہو گا طاقت زیادہ ہو تو کھڑا ہوگااوراس بات کو مرزا صاحب خود دوسری ویڈیو میں مانتے ہیں کہ حسنؓ نے طاقت نہ ہونے کی وجہ سے صلح کی تھی ورنہ وہ علیؓ کی طرح کھڑے ہوتے پس یہ بات اسی طرح سمپل اور کامن سینس کی ہے جیسے اوپر مرزا بھائی سمپل کہا ہے کیونکہ ملعون ناصبی حدیث کے اگلے الفاظ دکھائے گاکہ جب علی ؓنے دیکھا کہ لوگ اب ان سے پھر گئےاور طاقت کم ہو گئی تو تب بیعت کی ورنہ وہ بھی طاقت کے انتظار میں تھے۔
اشکال نمبر 2
رہ گئی انکی صحابیت وہ اپنی جگہ ہے ہم رافضی نہیں ہم عمار بن یار والے شیعہ ہیں جنہوں نے حسن کو ممبر کی اوپر والی سیڑھی پہ بٹھایا تھا اور خود نیچے والی پہ کھڑے ہو کر کہا امی عائشہ بصرہ سے روانہ ہو چکی ہیں اور وہ دنیا اور اخرت دونوں جگہ تمھارے نبی کی بیوی ہیں انکا مرتبہ کم نہیں ہے تمھاری ماں ہیں لیکن اللہ تمھیں آزما رہا ہے کہ تم عائشہ کی اطاعت کرتے ہو یا اللہ کی اطاعت کرتے ہو کیونکہ یہاں امیر المومنین کی اطاعت ہے واولی الامر منکم کے تحت۔ مرتبہ نہیں کم ہونے دیا عزت دی۔
میری رائے
مودبانہ عرض ہے کہ آپ نہیں بلکہ ہم عمار بن یاسرؓ والے شیعہ ہیں اسکی ٹھوس دلیل یہ ہے کہ آپ نے خود کہا کہ عمارؓ نے عائشہ ؓ کی غلطی بتائی مگر انکا مرتبہ کم نہیں ہونے دیا اب ہر عقل سلیم والا یہ جانتا ہے کہ اگر عائشہ ؓ کی غلطی اجتہادی تھی تو پھر انکا مرتبہ و احترام کم نہیں ہو گا لیکن اگر عائشہؓ کی غلطی دنیاوی لالچ اور مفاد پرستی میں تھی تو پھر لازمی انکا احترام اور مرتبہ کم ہو گا ۔ پس جب آپ نے خود کہا کہ عمار ؓ نے عائشہ ؓکا مرتبہ کم نہیں ہونے دیا تو ثابت ہوا کہ وہ عائشہؓ کی غلطی کو دنیاوی لالچ اور مفاد پرستی کی بجائے اجتہادی غلطی سمجھتے تھے ۔ اب یہی معاملہ معاویہؓ کا دیکھیں تو ہم عمار بن یاسرؓ کی طرح یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے علیؓ کے خلاف کھڑے ہو کر بہت بڑی غلطی کی لیکن یہ دنیاوی لالچ و مفاد میں نہیں بلکہ اجتہادی غلطی تھی یہی عمار بن یاسرؓ کا طریقہ تھا اسکے برعکس آپ نے دوسری ویڈیو میں بتایاکہ معاویہؓ نے صرف اپنی حکومت لینے کے لئے قصاصِ عثمان کو دھوکے سے ڈھال بنایا انکو قصاص کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں تھا اور معاویہ کے دھوکے باز ہونے کا قول ذکر کیا تو آپ پھر عمارؓ کے طریقے کے خلاف ہوئے کیونکہ آپ معاویہؓ کو مفاد پرست کہ کر انکا مرتبہ کم کرتے ہیں جبکہ عمارؓ نے عائشہؓ کو مفاد پرست کہ کر انکامرتبہ کم نہیں کیا تھا۔ میرا چیلنج ہے کہ کوئی عقل سلیم رکھنے والا اس وضاحت کے بعد آپکو عمارؓ والا شیعہ نہیں سمجھے گا۔
ہاں ایک طریقہ ہے کہ جس سے آپ اپنے آپ کو عمار بن یاسرؓ والا شیعہ کہ سکتے ہیں کہ آپ یہ کہیں کہ عائشہؓ نے بھی دنیاوی لالچ میں ایسا کیا تھا اور عمار ؓ نے عائشہؓ کی غلطی کو مفاد پرستی اور دنیاوی لالچ ہی سمجھا لیکن بھر بھی عائشہؓ کا مرتبہ کم نہیں ہوا پس ہم معاویہؓ کی غلطی کو بھی عائشہؓ کی طرح مفاد پرستی اور دھوکا کہتے ہیں لیکن عمار ؓ کی طرح انکا احترام کم نہیں کرتے۔ لیکن یہ طریقہ آپ شاید ابھی نہیں مانیں گے کیونکہ آپ کو لوگوں کے متنفر ہونے کا ڈر ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے خود ایک جگہ کہا ہوا ہے کہ پہلے میں اجتہادی غلطی کہتا تھا لیکن جب لوگ اس کو ماننے کے قابل ہو گئے تو اجتہادی غلطی کہنا بند کر دیا تھا پس کہیں یہاں بھی وما تخفی صدورھم اکبر والی کوئی بات تو نہیں ہے ؟ غلط گمان کی بہت بہت معذرت چاہتا ہوں مگر کیا کریں قرائن ہی ایسے ہیں کہ ہر عقل سلیم والا اوپر پڑھ کر یہی گمان کرتا ہے۔ آپ بھی معاویہ ؓ کے بارے ایسےگمان کرتے ہیں پس ناراض نہ ہوں اور دلیل سے بتائیں کہ عیسائی جب کہتے ہیں کہ صرف وہ عیسی کو ماننے والے ہیں تو کیا ہمیں مان لینا چاہئے حالانکہ اصل میں مسلمان عیسی کو مانتے ہیں پس آپ بھی دعوی کی بجائے ہماری طرح اصلی عمار بن یاسر ؓبنیں۔
اشکال نمبر 3
بخاری میں حدیث ہے کہ صحابی کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں مجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث نے بہت فائدہ پہنچایا کہ کسری کے لوگوں نے عورت کو اپنا حاکم بنایا تھا تو رسول اللہﷺ نے کہا کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جو اپنی بھاگ دوڑ عورت کے ہاتھ میں دے دیں( اور واقعی ایسا ہوا تھا وہ پرشیئن حکومت پھر گر بھی گئی تھی عمرؓ کے دور میں) ۔تو میں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ میں سیدہ عائشہؓ کا ساتھ دیتا تو مجھے وہ حدیث یاد آ گئی اور میں انکی حمایت سے پیچھے ہٹ گیا۔
میری رائے
ویسے تو چور کے بارے سنا تھا کہ وہ کہیں ایسی غلطی کر جاتا ہے کہ پکڑا جاتا ہے مگر آپ سے بھی لاشعوری ایسی غلطی ہو گئی کہ یہ حدیث بیان کر کےآپ نے اپنے نظریے کو خاک میں ملاتے ہوئے اپنے پاوں پہ کلہاڑی مار دی کیونکہ حدیث بتا رہی ہے کہ وہ صحابیؓ یہ سمجھتے تھے کہ مجھے عائشہؓ کے ساتھ مل کر علی ؓکے خلاف لڑنا چاہئے جیسے قتل عثمانؓ کے معاملہ میں اس وقت بڑے بڑے صحابہ کو دھوکا لگا تھا جن میں عائشہؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ شامل تھے لیکن ان صحابیؓ نے صرف اس وجہ سے ساتھ نہ دیا کہ ایک عورت کو سربراہ کیسے بنائیں ورنہ وہ بھی عائشہؓ اور معاویہؓ والا ہی موقف رکھتے تھے کیونکہ حدیث بتا رہی ہے کہ صحابیؓ کو اعتراض علیؓ کے خلاف کھڑے ہونے پہ نہیں بلکہ عورت کی سربراہی پہ تھا اور معاویہؓ تو عورت کی سربراہی میں نہیں تھے۔
اشکال نمبر 4
اور اس زمانے میں صحابہ کا ہمارے والا عقیدہ تھا کہ جسے فٹ اسے گفٹ۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ کسری کی عورت تو آگ کی پجاری ہے اسکو عائشہ سے کمپیئر کر رہے ہو اس وقت یہ دو نمبریاں نہیں ہوتی تھیں اس زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ بخاری کی حدیث ہے کہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اسکے بھی ہاتھ کاٹے جائیں گے۔
میری رائے
قرآن کہتا ہے کہ دوسروں کوجس نیکی کا کہتے ہو خود کیوں نہیں کرتےمرزا صاحب نے کہا کہ فاطمہؓ اور عام عورت میں فرق نہیں کیا جائے گامگر جب خلیفہ کی بیعت نہ کرنے کی بات ہوتی ہےتو علیؓ اور معاویہؓ میں فرق کرتے ہیں۔ خلیفہ وقت کی بیعت نہ کرنے کی غلطی تو علیؓ و طلحہؓ و زبیرؓو معاویہؓ سب نے اپنے موقع پہ کی البتہ پھر لڑائی ہر کسی نے اپنی طاقت کے مطابق ہی کی پس یہ سب خلیفہ وقت کے خلاف اپنی طاقت کے مطابق تو شروع سے ہی تھے جیسا کہ اوپر واضح کیا ہے پس کیا مرزا صاحب علیؓ اور فاطمہؓ کے لئے بھی وہی زبان استعمال کریں گے جو عائشہؓ و طلحہؓ و زبیرؓ و معاویہؓ کے لئے کرتے ہیں۔
اصل میں مرزا صاحب کا یہ قیاس ہی مع الفارق ہے چوری والے معاملے میں جرم ثابت تھا تو نبی ﷺ نے فرق نہ کرنے کا کہا مگر صحابہ کے خلاف باتیں یا تو اجتہادی غلطیاں ہیں جس پہ ایک ثواب ملتا ہے یا پھر ظنی باتیں ہیں جس پہ قرآن اجتنبوا کثیرا من الظن کہ کر برے گمان سے روکتا ہے۔ اسی برے گمان پہ ایک مثال پیش کروں گا کہ جبمرزا صاحب کے استاد اسحاق صاحب نے قادیانیوں کے معاملے میں ایک بیان دیا تو مرزا صاحب نے کہا کہ یہ اسحاق صاحب کی ایسی غلطی ہے کہ قیامت تک بھی اس داغ کو دھوتے رہیں تو یہ داغ دھل نہیں سکتا تو کیا وہاں یہ گمان ہو گا کہ یہ انہوں نےدنیاوی مفاد میں کی ہو گی؟
اشکال نمبر 5
یہ آج کل مولویوں نے ڈھکوسلہ مچا دیا ہے کہ کوئی صحابہ کو گالی دے تو وہ رافضی۔ اور جوصحابہ کے دور میں عام صحابہ کو نہیں(بلکہ) مولا علیؓ کو گالیاں دے(یعنی معاویہؓ) وہ رضی اللہ عنہ (یعنی انکو رضی اللہ عنہ کہا جائے)؟۔ضرور کہیں رضی اللہ عنہ لیکن ساتھ بتائیں کہ ان رافضیوں اور ناصبیوں کا مشترکہ باپ وہ ہے (یعنی معاویہؓ نعوذ باللہ)۔
میری رائے
انفیکشن زیادہ ہو تو اگلی جنریشن کی انٹی بائیوٹک دینی پڑتی ہے پس مشترکہ باپ والی بات کی وجہ سے مجھ سےیہاں کچھ سختی ہو جائے تو پیشگی معذرت۔ ویسے تو مرزا صاحب جانتےہوں گے کہ دو جرنیل ایک دوسرے کو گالیاں دیں تو اتنا مسئلہ نہیں لیکن اگر ایک سپاہی جرنیل کو گالیاں دینے لگے تو کورٹ مارشل ہو سکتا ہے لیکن چلیں اس دلیل کو چھوڑ کر دو ایسے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب جواب دینے کی بجائے اپنے استاد کے پاس پہنچنا پسند کریں گے۔
پہلا سوال کہ مسلم و بخاری کی کسی حدیث میں یہ دکھائیں کہ معاویہؓ نے علی ؓکو کبھی واضح گالی دی یا لعنت کی ہو مگر یاد رکھیں روایات میں سب(برا بھلا) کا لفظ آتا ہے یہ برا بھلا تو علیؓ بیعت کرنے سے پہلے ابو بکر کو بھی کہتے رہے یہ تو طلحہؓ و زبیرؓ و عائشہؓ و معاویہؓ بھی علیؓ کو قصاصِ عثمان پہ کہتے تھے پس اس برا بھلا (یعنی سب)کو کوئی گالی نہیں کہتا اس کے علاوہ معاویہؓ کی لعنت یا گالی والی واضح روایت دکھائیں تو ہم کہیں گے کہ آپ واقعی علمی کتابی ہیں علمی فراڈی نہیں۔
دوسرا سوال کہ علیؓ کوایک ایسی ہستی نےگالی دی ہوئی ہے کہ آپ نمرود کی طرح مبہوت ہو جائیں وہ نبی ﷺ کے چچا عباسؓ ہیں نیچے مسلم کی حدیث دیکھیں:
فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا الكاذب الآثم الغادر الخائن۔تو عباسؓ نے کہا: امیر المومنین! (یعنی عمرؓ) آپ میرے اور اس (علیؓ) جھوٹے، گناہ گار، عہد شکن اور خائن کے درمیان فیصلہ کر دیں
اس میں عباسؓ نے عمرؓ کو امیر المومنین کہا اور علیؓ کو جو کہا وہ اوپر لکھا ہوا ہے اب کیا مرزا صاحب انکورافضیوں اور ناصبیوں کا مشترکہ باپ کہیں گے جو اوپر ویڈیو میں کہا ہے (نعوذ باللہ من ذالک)۔یہ وہ ہڈی ہے جو نہ نگلی جا سکتی ہے نہ اگلی جا سکتی ہےسوائے یہ کہ ناصبیوں اور رافضیوں کا مشترکہ باپ کہنے والی بات سے آپ رجوع کر لیں ورنہ جس کو وہ کہنا چاہتے ہیں اس پہ تو یہ بات فٹ نہیں آتی کیونکہ اسں نے تو علیؓ کو کبھی گالی نہیں دی لیکن عباسؓ نے یہ الفاظ علیؓ کے بارے کہے تھے ان پہ مرزا صاحب کی بات عین فٹ آئے گی اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔مرزا صاحب بہت معذرت مگر مشترکہ باپ کہنا اتنی بڑی بات ہے کہ یہاں مجھ سے کچھ سخت باتیں ہو گئیں۔