سوال (5375)
انتہائی ادب و احترام سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میری شادی فروری سن 2017 میں ہوئی۔ نکاح کے وقت حق مہر کی مقدار “پانچ تولہ سونا عندالطلب ادا کیا جائے گا” اس شرط کے ساتھ نکاح نامہ میں درج کی گئی۔ اُس وقت سونے کی قیمت تقریباً 48,000 روپے فی تولہ تھی۔
میں اُس وقت اس بات سے واقف نہ تھا کہ حق مہر کی شرعی و قانونی اہمیت کیا ہے، نہ ہی اس کی مالی ادائیگی کی اصل حقیقت و حدود سے آگاہ تھا۔ حق مہر میرے خاندانی بزرگوں نے طے کیا، اور میں نے اسے رسمی کارروائی سمجھ کر تسلیم کر لیا۔ جبکہ میری اہلیہ نے عدالت میں میرے خلاف حق مہر کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے، تو موجودہ سونے کے نرخوں کے مطابق (تقریباً 3 لاکھ روپے فی تولہ) حق مہر کی کل رقم تقریباً 15 لاکھ روپے سے زائد بن رہی ہے، جو کہ میرے لیے کسی صورت بھی قابلِ برداشت یا قابلِ ادائیگی نہیں ہے۔
جناب عالی! نکاح کے بعد میں نے زندگی کے مختلف مراحل میں شدید مالی مشکلات کا سامنا کیا، میرے ذاتی کاروبار میں نقصان ہوا اور مجھے اپنی گاڑیاں تک بیچنا پڑیں۔
دو سال آن لائن ٹیکسی چلا کر گزر بسر کیا، اب میں نے بچوں کے پیمپرز کی چھوٹی سی دکان شروع کی ہے جو محض 10 ماہ پرانی ہے۔ دکان کا زیادہ تر مال ادھار کا ہے اور میں تاحال نفع کی بجائے صرف خسارے میں ہوں
میری ماہانہ آمدن محدود ہے، جس میں سے میں پہلے ہی گھر کا خرچہ، بچوں کی تعلیم اور نان نفقہ کی ادائیگی کر رہا ہوں (تقریباً 60,000 تا 70,000 روپے ماہانہ)
اس تناظر میں گزارش ہے کہ مجھے شرعی طور پر رہنمائی فراہم کی جائے:
1. کیا شرعاً ایسا ممکن ہے کہ حق مہر کی مقدار کو حالات کے مطابق کم کیا جائے؟
2. کیا یہ حق مہر غیر متناسب یا غیر عملی قرار دیا جا سکتا ہے جبکہ فریق شوہر اس کی ادائیگی پر مکمل طور پر قادر نہ ہو؟
3. کیا شرعاً قسطوں میں یا حالات کے مطابق تخفیف یا تبدیلی کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
4. ایسے حالات میں شرعی حل کیا ہو گا تاکہ میں گناہگار نہ ہوں اور ادائیگی ممکن ہو سکے؟
میری التجا ہے کہ آپ میرے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مفصل فتویٰ جاری فرمائیں تاکہ میں عدالت میں اسے بطور سند پیش کر سکوں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو دین کی خدمت پر بہترین جزا عطا فرمائے۔
جواب
مسلم معاشرے میں خاندانی مسلمان کہنے والا اللہ تعالیٰ کے دین سے اس قدر کیسے نابلد ہو سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کی شریعت سے اتنی دوری کہ پتا نہیں ہے کہ حق مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس لیے یہ یاد رکھیں کہ حق مہر طے ہوگیا ہے، جس شکل میں طے ہوا ہے، اسی شکل میں ادا ہوگا، ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ آپ کی زوجہ بغیر کسی دباؤ کے تخفیف کردے، اس کے علاؤہ ایک صورت یہ ہے کہ قسطوں میں ادا کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ