ہر دل کی آہ، بیت اللہ کا حج
سب سے پہلے یہ لکھوں کہ وہ لوگ کس قدر خوشنصیب ہیں، جو آج کل بیت اللہ کے ارد گرد مناسک حج ادا کر رہے ہیں، ان کی خوشیوں کا کیا کہنا اور کیا لکھنا، بس میرے رب ان کی عبادتیں قبول فرما اور ان کو ریاکاری جیسی بیماری سے بچانا۔
یقین جانیے کوئی مسلمان کتنا بھلے گہنگار کیوں نہ ہو، لیکن بیت اللہ کو دیکھنے کے لیے اس کا دل تڑپتا ہے، عازمین حج و عمرہ کس قدر لمبے سفر کرتے ہیں، دور دور سے آتے ہیں، ان کی تھکن کس قدر ہوتی ہے، لیکن بیت اللہ کو دیکھ کر ہی تمام تھکن اتر جاتی ہے، گویا کوئی سفر ہی نہ کیا ہو، کوئی تھکن ہی لاحق نہ ہوئی ہو، کیا مناسک حج ادا کرنے میں سرور ہے یہ تو اس سے پوچھیں کہ جس نے پوری زندگی کی جمع پونجی بیت اللہ کے سفر میں لگایا ہو، ایک ہی سفر سے تمام محنتیں اور مشقتیں بھول گیا ہو، کیا خوبصورت لمحات ہوتے ہیں، کیا خوشیاں ہوتی ہیں، یہ ہر دل کی کیفیت اللہ ہی جانتا ہے، بیت اللہ سے پہلے ہی ائیرپورٹ جاتے ہی دل خوشیوں سے پھول جاتا ہے، سرزمین حجاز پر قدم رکھتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کی یاد آتی ہے، مدینہ جاتے ہی مسجد نبوی میں عبادتوں کا کیا ماحول ہوگا، وہاں کی کیا ہوائیں ہونگی، وہاں بیٹھ کر اصحاب رسول کے تذکرے کا کیا لطف ہوگا، اس طرح کی باتیں ہونگی کہ سلمان فارس سے مدینہ کی تلاش میں نکلا تھا، مصعب مکہ کی بادشاہی چھوڑ کر یہاں آئے تھے، ذرا امی عائشہ کا حجرہ دیکھاؤ، چلو ریاض الجنہ بیٹھتے ہیں، ذرا مدینہ کا پرانا نقشہ چیک کرو، باقی ازواج کے حجرے کہاں کہاں تھے، الغرض وہ مجلس بھی لاجواب ہوگی۔ مدینہ سے نکل کر ذو الحیلفہ سے احرام باندھ کر مکہ جانے کا سفر بھی بڑا ہی حسین ہوگا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی قصواء اونٹنی اور احرام باندھنے کا منظر فوری ذہن میں آئے گا، تمام لوگوں کا یک زبان ہو کر تلبیہ پڑھنا کا منظر بھی کمال ہوگا۔ مکہ مکرمہ پہنچتے ہی جیسے ہی قدم بیت اللہ میں داخل ہوں گے، سب غم و دکھ لمحوں میں بھول جائیں گے، دل کی دنیا ہی بدل جائے گی، طواف کے ہر چکر میں روح کو سکون نصیب ہوگا، زمزم کی مٹھاس دل و جان کو سرشار کر دے گی، مقامِ ابراہیم کو سامنے رکھ کر دو رکعت ادا کرنے کا منظر بھی ناقابل بیان ہوگا، دل سے بے اختیار آہ نکلے گی: “ہائے! میرا عمرہ مکمل ہوگیا!”
آٹھ ذی الحجہ کا دن بھی کتنا لاجواب ہوگا، جب مکہ سے منی جانا پڑے گا، مناسک حج کی ادائیگی کی شروعات ہوگی، منی کی نمازیں، وہاں کا ٹھرنا اللہ ہر مسلمان کو نصیب فرمائے، نو ذی الحجہ کے دن عرفات کا سفر دنیا کا سب سے خوبصورت ترین سفر ہوگا، وقوف عرفہ کے بدل کوئی چیز نہیں، کیونکہ میرے رسول نے فرمایا تھا کہ حج عرفہ ہی ہے، عرفہ کے دن حج کا خطبہ اور عرفہ کی نمازیں اے اللہ کیسا پیارا منظر ہوگا، وہاں دنیا کے بڑے نیک و مجرم جمع ہونگے، ہر کسی کے ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہونگے، ہر کسی کی دل کی التجاء یہ ہوگی کہ اے میرے رب مجھے معاف فرما، وہاں ہر سال سب کے لیے معافی کا اعلان ہوتا ہے، وہاں امیر و غریب کا فرق نہیں ہوتا ہے، وہاں سیاہ و سفید کا امتیاز نہیں ہوتا ہے، وہاں حسب و نسب نہیں دیکھے جاتے ہیں، بلکہ تمام کے تمام ایک ہی میدان میں دو سفید چادروں میں ملبوس ہوتے ہیں۔
میدان عرفہ سورج غروب ہونے کے بعد اب مزدلفہ آ کر مغرب و عشاء جمع کرنے کا کیا حسین لمحہ ہوگا، بڑی عمارتوں میں نرم بستروں پہ سونے والے مزدلفہ کی رات خالی چھت زمین پہ سوتے ہیں، زمین پہ سونے کے باوجود مزدلفہ کی نیند کیسی ہوگی، ایک ہی چادر اوڑھ کر سر بستے پر رکھ کر سونے کا منظر بھی خوب ہوگا، مزدلفہ کی فجر کی نماز بھی یاداشت بن جائے گی۔
پھر دسویں تاریخ کو دوبارہ منیٰ واپس آنا ہوگا، منیٰ کے خوبصورت لمحات میں رمیِ جمار، قربانی، حلق یا قصر، اور طوافِ افاضہ جیسے عظیم اعمال شامل ہوں گے، اس کے بعد احرام کھول دیا جائے گا، منیٰ میں تین راتیں گزار کر ہر دن رمیِ جمار کی جائے گی، آخرکار وہ لمحہ آئے گا جب آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے اور طوافِ وداع کی نوبت آ جائے گی، دل بیت اللہ سے جدا ہونے کو نہیں چاہے گا، مگر مجبوری کے تحت وہاں سے آنا ہوگا۔ یوں زندگی بھر کی ایک آرزو حج کی صورت میں مکمل ہوگی۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی