سوال (2772)
ہر طہر میں ایک طلاق دینے کا کیا حکم ہے؟ کیا ہر طہر میں دی گئی طلاق شمار کی جائے گی؟
جواب
یہ بدعت ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ”
«طلاق (رجعی) دو بار ہے، پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے، یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے»
یعنی پہلی یا دوسری طلاق دینے کے بعد خاوند دوبارہ بسانے کا ارادہ رکھتا ہے تو عدت کے اندر رجوع کرے، یہ ’’اچھے طریقے سے رکھ لینا‘‘ ہے۔ اگر یہ ارادہ نہیں تو رجوع نہ کرے، بلکہ ایک طلاق دے کر عدت گزرنے دے، بیوی خود بخود جدا ہو جائے گی، یہ ’’نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا‘‘ہے، ہر طلاق کے بعد شریعت نے صرف یہ دو آپشن دیے ہیں: یا تو ایک طلاق کے بعد عدت پوری ہونے دے، یا پھر بسانے کی نیت سے رجوع کر لے، تیسرا آپشن نہیں ہے۔
اس طریقہ طلاق کو امام مالک رحمہ اللہ نے بدعت کہا ہے:
احناف جسے طلاق حسن کہتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے اسی کو طلاق بدعت کہا ہے اور امام مالک کا یہ قول خود احناف نے ہی نقل کر رکھا ہے چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ھدایہ میں ہے:
”والحسن هو طلاق السنة وهو أن يطلق المدخول بها ثلاثا في ثلاثة أطهار وقال مالك رحمه الله إنه بدعة ولا يباح إلا واحدة لأن الأصل في الطلاق هو الحظر والإباحة لحاجة الخلاص وقد اندفعت بالواحدة“.
”طلاق حسن، طلاق سنت ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق مسلسل تین طہر میں دے، اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ بدعت ہے اور صرف ایک ہی طلاق دینا جائز ہے، کیونکہ اصلا طلاق ممنوع ہے اور اس جواز ضرورت کے تحت ہی ہے اور صرف ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے“
[الهداية في شرح بداية المبتدي 1/ 221]
اور یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔
اصل میں عامۃ الناس کے ہاں مشہور ہے کہ جب تک تین مرتبہ طلاق نہیں دیں گے تو طلاق پوری واقع نہیں ہوگی جس سے بیوی جدا ہو سکے، حالانکہ ایک طلاق دینے کے بعد بھی بیوی عدت پوری کرکے جدا ہوجائےگی۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث محمد محبوب اثری حفظہ اللہ