سوال (2672)

کیا حرام کی کمائی پر زکٰوة فرض ہے؟

جواب

حرام خور کے متعلق یہ بھی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کا صدقہ بھی قبول نہیں کر تا۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حرام کمائے پھر اسے صدقہ کرے تو ایسا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور اگر اس سے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی۔
[مسند امام احمد، ص ۳۸۷، ج ۱]

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

حرام سے نشو ونما پانے والے جسم اور حرام کھانے پینے والے سے جس طرح نماز،حج جیسی عبادات ساقط نہیں ہوں گیں اسی طرح اس سے زکوۃ بھی ساقط نہیں ہو گی۔
رہا مسئلہ اس کی قبولیت کا تو یہ دوسرا پہلو ہے
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ

جو شخص طیب کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور الله تعالیٰ صرف طیب وحلال کمائی کے صدقہ کو ہی قبول کرتے ہیں تو الله تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتے ہیں پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلاکر بڑھاتا ہے حتی کہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔
[صحیح البخاری : 1410]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا وَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنْ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وَقَالَ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِكَ

سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فر ما یا :اے لو گو ! الله تعا لی پاک ہیں اور پا ک ( مال) کے سوا ( کوئی اور مال ) قبو ل نہیں فرماتے الله تعالی نے مو منوں کو بھی اسی بات کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا الله تعا لیٰ نے فرمایا :”اے انبیاء ورسل (کی مبارک جماعت صلوات الله عليهم أجمعين) ! پا ک چیزوں سے کھا ؤ اور نیک کا م کرو جو عمل تم کرتے ہو میں اسے اچھی طرح جا ننے والا ہوں اور فرمایا اے ایمان والو!جو پاکیزہ رزق ہم نے تمھیں عنا یت فرمایا ہے اس میں سے کھاو ۔پھر آپ نے ایک آدمی کا ذکر کیا :” جو طویل سفر کرتا ہے بال پرا گندا اور جسم غبار آلود ہے۔ (دعا کے لیے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہا تھ پھیلا تا ہے اے میرے رب اے میرے رب! جبکہ اس کا کھانا حرام کا ہے اس کا پینا حرام کا ہے اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کو غذا حرام کی ملی ہے تو اس کی دعا کیسے قبو ل ہو گی۔
[صحیح مسلم : 1015 ،سنن ترمذی: 2989 ،مسند أحمد بن حنبل : 8348]
تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ان ارشادات سے معلوم ہوا کہ رب العالمین صرف حلال اور طیب کو قبول فرماتے ہیں اور جس کی آمدنی غذا کے لوازمات طیب وحلال نہیں اس کی عبادت ونیکی شدید نقصان اور خطرے میں ہے ۔
اس لیے حیلے بہانوں کی پناہ لینے کی بجائے رزق حلال کمانے کی کوشش کریں حرام ذرائع آمدنی سے مکمل طور پر اجتناب کریں کہ یوم حساب قریب ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں فریضہ زکٰوۃ کو اس لیے ترک نہیں کریں کہ ہمارا مال طیب وحلال نہیں کیونکہ اگر آپ زکوۃ ادا کرتے ہیں تو فریضہ ادا ہو جائے گا اور ممکن ہے زندگی میں توبہ کی توفیق مل جائے اور رب العالمین برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما دیں بصورت دیگر فرض کے بارے میں پوچھ گچھ تو نہیں ہو گی سوائے حرام طریقے سے کمائے گئے مال کے بارے میں یعنی دہرا مجرم بننے سے تو بچ جائیں گے اور اگر فرض ادا نہیں کیا ہو گا تو سزا دگنی ہو جائے گی رب العالمین ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور خود کی اصلاح کرنے کی توفیق سے نوازیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ