سوال (4957)

سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنھما کی فضیلت کے بارے میں دلائل مطلوب ہیں؟

جواب

سیدنا حسن ابن علی اور سیدنا حسین ابن علی رضی الله عنھما کی شان وعظمت میں کئی ایک دلائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں، ان کی کوئی خاص فضیلت نہیں بھی ہو تو شرف صحابیت ہی کافی ہے مگر وہ شرف صحابیت کے ساتھ ساتھ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے محبوب ترین نواسے تھے سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ اور سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی الله عنہا کے لخت جگر تھے، جو فضائل قرآن وحدیث میں مطلقا بیان ہوئے ہیں بلاشبہ ان کے مصداق حسنین کریمین بھی تھے۔
اب چند ایک فضائل ملاحظہ فرمائیں:
ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا۔

الله تعالی یہ چاہتے ہیں کہ اپنے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دیں اور تمہیں خوب پاک کر دیں۔[الاحزاب: 33]
امام محمد بن جریر الطبری الله تعالى کے ارشاد مبارک کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:

ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺮﻳﺪ اﻟﻠﻪ ﻟﻴﺬﻫﺐ ﻋﻨﻜﻢ اﻟﺴﻮء ﻭاﻟﻔﺤﺸﺎء ﻳﺎ ﺃﻫﻞ ﺑﻴﺖ ﻣﺤﻤﺪ، ﻭﻳﻄﻬﺮﻛﻢ ﻣﻦ اﻟﺪﻧﺲ اﻟﺬﻱ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﺃﻫﻞ ﻣﻌﺎﺻﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻄﻬﻴﺮا،[تفسیر الطبری: 20/ 262]

امام قتادہ بن دعامہ نے کہا:

ﻓﻬﻢ ﺃﻫﻞ ﺑﻴﺖ ﻃﻬﺮﻫﻢ اﻟﻠﻪ ﻣﻦ اﻟﺴﻮء، ﻭﺧﺼﻬﻢ ﺑﺮﺣﻤﺔ ﻣﻨﻪ،[تفسیر الطبری: 20/ 262]

یہ آیت مبارکہ امہات المؤمنین رضی الله عنھن کی شان وعظمت میں بالخصوص اور سیدنا علی المرتضی،سیدہ فاطمہ،سیدنا حسن ابن علی،سیدنا حسین ابن علی رضی الله عنھم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔
(اہل بیت میں سیدنا علی،سیدہ فاطمہ،سیدنا حسن ابن علی،سیدنا حسین ابن علی رضی الله عنهم اجمعين بھی شامل ہیں)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنها کی گواہی ملاحظہ فرمائیں:

قَالَتْ عَائِشَةُ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ:{إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] [صحیح مسلم: 2424 كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُم بَاب فَضَائِلِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ]

یہ حدیث مبارک دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اہل بیت میں ان چار ہستیوں کو بھی شامل فرمایا اور یہ گواہی وہ عظیم ہستی دے رہی ہیں جن کی شان وعظمت باکمال اور لاجواب ہے مگر اہل بیت کو ماننے کے دعویدار امی جی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو نہیں مانتے ہیں نہ انہیں اپنی ماں مانتے ہیں ، مگر یہ کیسا انصاف اور دعوی ہے کہ اہل بیت جنہیں مانتے ہیں ان کا اہل بیت سے ہونے کی گواہی دینے والی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو نہیں مانتے مطلب بہت واضح ہے کہ درحقیقت یہ اہل بیت کو بھی نہیں مانتے ہیں۔
کیا یہ گمراہ لوگ بتا سکتے ہیں کہ اہل بیت کی معرفت وعظمت ان کے پاس کس ذریعے پہنچی ہے؟
یار اہل بیت کی عظمت کو ماننے کا دعویٰ تو ہے مگر جو ان کی عظمت کے گواہ ہیں ان پر جرح وطعن کرتے ہو؟
خیر سمجھنے والے سمجھ جائیں گے۔
جمیع اھل بیت سے بغض کرنے والے کا انجام:

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: و الذي نفسي بيده، لا يُبغِضُنا أهلَ البيتِ أحدٌ إلا أدخلَه اللهُ النارَ،[صحیح ابن حبان: 6978 سنده حسن لذاته]

نوجوانان جنت کے سردار سیدنا محمد مصطفی صلی الله عليه وسلم کی کمر مبارک پر اور جن کے لیے آسمان چمک اٹھا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ، أَخَذَهُمَا بِيَدِهِ مِنْ خَلْفِهِ أَخْذًا رَفِيقًا، فَيَضَعُهُمَا عَلَى الْأَرْضِ، فَإِذَا عَادَ عَادَا، حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ، أَقْعَدَهُمَا عَلَى فَخِذَيْهِ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرُدُّهُمَا، فَبَرَقَتْ بَرْقَةٌ، فَقَالَ لَهُمَا: ” الْحَقَا بِأُمِّكُمَا “. قَالَ: فَمَكَثَ ضَوْؤُهَا حَتَّى دَخَلَا، [مسند أحمد بن حنبل: 10659 الشريعہ للآجری: 1650 المعجم الکبیر: 2659 سندہ حسن لذاته]

جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ ان دونوں سے محبت کرے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ( هو ابن مسعود رضى الله عنه)، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَإِذَا أَرَادُوا أَنْ يَمْنَعُوهُمَا أَشَارَ إِلَيْهِمْ: أَنْ دَعُوهُمَا فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ وَضَعَهُمَا فِي حِجْرِهِ. فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّنِي فَلْيُحِبَّ هَذَيْنِ،
[مسند ابن ابی شیبہ:(397)السنن الکبری للنسائی:(8114) مسند ابی یعلی:(5017) صحيح ابن خزيمة:(887) مسند الشاشی: (638)الشریعہ للآجری:(1646)المخلصيات:2/ 382 سندہ حسن لذاته۔]

سیدنا حسن بن على رضى الله عنه کے بارے پشین گوئی:
سیدنا ابوبکرہ کہتے ہیں:

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ إِلَى جَنْبِهِ يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً وَيَقُولُ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ،[صحیح بخاری: 3746]

سیدنا حسن محبوب نبی مکرم صلی الله عليه وسلم تھے:
سیدنا براء بن عازب بیان کرتے ہیں:

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ
[صحیح بخاری:(3749)صحیح مسلم:(2422]

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اس خوش بخت کے لیے محبت الہی کے حاصل ہونے کی دعا جو سیدنا حسن ابن علی رضی الله عنہ سے پیار کرتا ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ المَدِينَةِ، فَانْصَرَفَ فَانْصَرَفْتُ، فَقَالَ: أَيْنَ لُكَعُ ثَلاَثًا ادْعُ الحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ فَقَامَ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ يَمْشِي وَفِي عُنُقِهِ السِّخَابُ( اور ان کے گلے میں خوشبو دار لونگ وغیرہ کا ہار تھا) ،فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ هَكَذَا، فَقَالَ الحَسَنُ بِيَدِهِ هَكَذَا، فَالْتَزَمَهُ فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَمَا كَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، بَعْدَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ، [صحیح بخاری: 5884 واللفظ له صحیح مسلم: 2421]

سیدنا ابو بکر رضی الله عنه کا سیدنا حسن سے پیار:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ صَلَّى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَصْرَ ثُمَّ خَرَجَ يَمْشِي فَرَأَى الْحَسَنَ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ فَحَمَلَهُ عَلَى عَاتِقِهِ وَقَالَ بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ لَا شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ وَعَلِيٌّ يَضْحَكُ،[صحیح بخاری: 3542]

حسنین کریمین سے محبت کرنے کی فضیلت:

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﺣﺒﻬﻤﺎ ﻓﻘﺪ ﺃﺣﺒﻨﻲ، ﻭﻣﻦ ﺃﺑﻐﻀﻬﻤﺎ ﻓﻘﺪ ﺃﺑﻐﻀﻨﻲ ﻳﻌﻨﻲ ﺣﺴﻨﺎ ﻭﺣﺴﻴﻨﺎ۔[مسند احمد: 7876 حسن]

حسین مجھ سے ہیں:

ﺣﺴﻴﻦ ﻣﻨﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﻣﻦ ﺣﺴﻴﻦ، ﺃﺣﺐ اﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺣﺴﻴﻨﺎ، ﺣﺴﻴﻦ ﺳﺒﻂ ﻣﻦ اﻷﺳﺒﺎﻁ،
[مسند احمد: 17561 سنن ابن ماجہ: 144 سنن ترمذی: 3775 حسن]

حسنین کریمین نبی مکرم کے انوکھے پھول:
سیدنا ابن عمر رضى الله عنه نے کیا پتے کی بات کہی:

فَقَالَ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنْ الذُّبَابِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنْ الدُّنْيَا[صحیح بخاری: 3753]

یہ جامع اور معتبر اسانید ومصادر سے حسنین کریمین رضی الله عنھما کی شان وعظمت پر انمول جواہرات پیش کر دئیے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر دل خوش ہو جاتا روح سکون وعافیت پاتی ہے ایمان بڑھ جاتا ہے اور اپنی جان آل اولاد سب کچھ ان پہ قربان کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اے ہمارے معبود برحق آپ حسنین کریمین کو ماننے والوں کو عقیدہ وایمان اور قرآن وسنت کو بھی اسی طرح قبول کرنے کی توفیق دیں جس طرح حسنین کریمین نے ایمان لا کر قبول کیا تھا ۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ