سوال (2683)
حضرت آدم علیہ السلام کو جس پھل کے کھانے سے منع کیا گیا تھا، وہ کون سا درخت تھا؟
جواب
اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی چيز ثابت نہیں ہے۔ بعض آثار اور تاریخی روایات میں انگور، گندم، انجیر وغیرہ کے نام آئے ہیں، لیکن بہرصورت یہ مستند روایات نہیں ہیں۔ لہذا اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ کون سا درخت تھا۔ ویسے بھی جو بھی درخت ہو، اگر اس کی تعیین اور پہچان میں کوئی فائدہ ہوتا تو قرآن میں جہاں لفظ شجرہ بولا گیا ہے، ساتھ اس کی وضاحت بھی کر دی جاتی، یا کم ازکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آیات صحابہ کو پڑھ کر سنائی تھیں، تو ان کی تشریح و توضیح میں یہ ضرور بیان فرما دیتے… لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ قرآن و سنت میں اس کی وضاحت موجود نہیں ہے۔ لہذا اس حوالے سے خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔
امام المفسرین ابن جریر الطبری فرماتے ہیں:
«الصوابُ في ذلك أن يقالَ: إن اللهَ تعالى ذكرُه نهَى آدمَ عليه السلام وزوجتَه عن أكلِ شجرةٍ بعينِها مِن أشجارِ الجنةِ دون سائرِ أشجارِها، فخالَفا إلى ما نهاهما اللهُ عنه، فأكلا منها كما وصَفَهُما اللهُ به، ولا علمَ عندَنا [بأىِّ ذلك من أىٍّ]. وقد قِيلَ: كانت شجرةَ البُرِّ. وقيل: كانت شجرةَ العِنَبِ. وقيل: كانت شجرةَ التِّينِ. وجائزٌ أن تكونَ واحدةً منها، وذلك [عِلْمٌ إذا عُلِم] لم يَنْفَعِ العالمَ به علمُه، وإنْ جَهِله جاهلٌ لم يضُرَّه جهلُه به.». [تفسير الطبري 1/ 557]
امام صاحب کی بات کا مفہوم اور خلاصہ وہی ہے جو اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی چيز ثابت نہیں ہے اور یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس کے معلوم ہونے میں کوئی فائدہ ہے یا معلوم نہ ہونے میں کوئی نقصان ہے۔
امام رازی اور ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے بھی اسی کو درست قرار دیا ہے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ