سوال (2126)

“عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا وُلِدَ الْحَسَنُ سَمَّیْتُہُ حَرْبًا، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَرُوْنِيْ اِبْنِيْ، مَا سَمَّیْتُمُوْہُ؟ قَالَ: قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ: بَلْ ھُوَ حَسَنٌ۔ فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَیْنُ سَمَّیْتُہُ حَرْبًا، فَجَائَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَرُوْنِي اِبْنِي مَا سَمَّیْتُمُوہُ؟ قَالَ: قُلْتُ: حَرْبًا، قَالَ: بَلْ ھُوَ حُسَیْنٌ۔ فَلَمَّا وُلِدَ الثَّالِثُ سَمَّیْتُہُ حَرْبًا، فَجَائَ النَّبِيُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَرُوْنِي اِبْنِي مَا سَمَّیْتُمُوْہُ؟ قُلْتُ: حَرْبًا۔ قَالَ: بَلْ ھُوَ مُحَسِّنٌ۔ ثُمَّ قَالَ: سَمَّیْتُھُمْ بِأَسْمَائِ وَلَدِ ھَارُوْنَ شَبَّرُ، وَ شَبِّیْرُ، وَ مُشَبِّرٌ”.[مسند أحمد: ۷۶۹]

اس حدیث کی سند کے بارے میں معلومات فراہم کریں، کیا یہ حدیث ضعیف ہے، کیا یہ حدیث حسن صحیح ہے، دراصل اس کے اوپر کچھ لوگوں کی بحث ہوگئی ہے، ایک گروہ کہتا ہے یہ حدیث حسن صحیح ہے، عبدالمنان راسخ صاحب نے اپنی کتاب شانِ حسن و حسین میں حسن لکھا ہے، دوسرا کہتا ہے یہ حدیث ضعیف ہے، الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللّٰہ نے اسے ضعیف کہا ہے، اگر ممکن ہوسکے تو مکمل تفصیلات کے ساتھ رہنمائی فرما دیں؟

جواب

1: اس روایت کو الشيخ شعیب الارنووط نے تخریج المسند لشیعب میں کہا ہے کہ رجالہ ثقات ٩٥٣
2 : اسی طرح الشيخ احمد شاکر نے تخریج المسند لشاکر میں اسنادہ صحیح کہا ہے ١١٥/٢
3 : علامہ الھیثمی نے مجمع الزوائد میں رجالهما رجال الصحيح غير هاني بن هاني وهو ثقة کہا ہے 55/8
4 : حافظ ابن حجرعسقلانی نے الاصابة في تميز الصحابة میں اسنادہ صحیح کہا ہے 471/3
5 : امام بزار نے البحر الزخار میں کہا ہے لا نعلمه يروي بأحسن من هذا الإسناد وروي من وجه آخر 314 /2
6 : امام ذھبی نے المهذب فی اختصار السنن میں کہا ہے لم يروه في الكتب الستة وهاني ليس بمعروف ٢٦٣٠ /٥
7 : المقدسی نے الأحاديث المختارة ٧٨٣ میں کہا ہے هذه أحاديث اخترتها مما ليس في البخاري ومسلم
امام حاكم اور امام ابن حبان نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے، ہمیں جو تخریج معلوم ہوئی ہے اس روایت کے حوالے سے وہ آپ کے سامنے ہم نے رکھ دی ہے، روایت حسن ہے ان شاءاللہ تعالٰی۔

فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ

دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ھانی بن ھانی کے غرائب میں ذکر کیا اور غريب من حديث يوسف بن إسحاق بن أبي إسحاق عن جده أبي إسحاق. تفرد به عنه إبراهيم بن يوسف۔

اور امام بزار رحمہ اللہ کا پورا کلام ملاحظہ کیجئے جو ان کے اسلوب سے واقف ہے کھبی بھی نہیں کہہ سکتا کہ انھوں سے اس حدیث کو حسن یا صحیح کہا۔ واللہ اعلم
یہ حدیث ھانی کے تفرد کی وجہ سے ضعیف ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

ہانی کی توثیق کسی بھی ناقد امام سے ثابت نہیں نہ ہی اس کے ضبط پر کوئی دلیل و قرینہ موجود ہے۔
سیدنا علی المرتضیٰ رضی الله عنہ کے تلامذہ میں جو ثقات ہیں وہ ان سے یہ روایت بیان نہیں کرتے ہیں یہ بھی اس کے غیر محفوظ ہونے پر ایک قرینہ ہے۔

هاني بن هاني لخص القول فيه ابن حجر في التقريب فقال مستور وقد جهله قال الحافظ ابن حجر في التهذيب
وذكره ابن سعد في الطبقات في الطبقة الأولى من أهل الكوفة قال وكان يتشيع وقال ابن المديني مجهول وقال الشافعي هانيء بن هاني لايعرف وأهل العلم بالحديث لا ينسبون حديثه لجهالة حاله

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ