’’ہیجان انگیز جنسی عنوانات اور سوشل میڈیا پر اسلامی چینلز کی اخلاقی ذمہ داری’’

تاثرات 
ڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن

1: سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں جہاں معلومات کا سیلاب ہے، وہیں اسلامی چینلز کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔ یہ چینلز دین کی تعلیمات کو عام کرنے، لوگوں کی رہنمائی کرنے اور انہیں شرعی مسائل سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ تاہم، یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کچھ اسلامی چینلز ریٹنگ بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ ویوز حاصل کرنے کی دوڑ میں ایسے ہیجان انگیز جنسی عنوانات اور تھمب نیلز کا استعمال کرتے ہیں، جو سوشل میڈیا کی چالوں سے تو شاید ہم آہنگ ہیں، لیکن حیا، وقار اور اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔
اس پر مستقل ضابطہ اخلاق اور شرعی راہ نمائی کی ضرورت ہے۔ سر دست ایسی تحریر ممکن نہیں ہوسکی، تاہم درد دل کو پیش کرنے کے لیے کچھ تاثرات پیش خدمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔

2: اسلام میں حیا کو ایمان کا ایک اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ بلکہ اخلاقی حوالے سے حیوانی اور انسانی زندگی میں فرق کرنے والی ایک اہم چیز حیا کی ہے۔ ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخوں میں سے حیا ایک ایسی شاخ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی۔ بلکہ ایمان کی یہ وہ مضبوط شاخ ہے جس کی بقا میں ایمان کی بقا مضمر ہے۔
3: نگاہوں میں حیا،لباس میں حیا،چال میں حیا،الفاظ وکلمات میں حیا۔
سورۃ الاحزاب آیت 32 میں امہات المؤمنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ اپنی گفتگو میں نرمی نہ اختیار کریں تاکہ جس کے دل میں روگ ہو، اسے لالچ نہ ہو۔ اگرچہ یہ آیت خاص ہے، لیکن اس سے ایک عمومی اصول نکلتا ہے کہ درست اور پاکیزہ بات کو بھی اس اس انداز میں پیش نہ کیا جائے جس سے مریض القلب لوگوں میں ہیجان پیدا ہو۔ دوسری طرف
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“الْحَيَاءُ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ”

(حیا ہمیشہ بھلائی لاتی ہے)۔ (صحیح مسلم)
4: میرا یہ احساس ہے کہ سوشل میڈیا کے غیر معمولی اثرات میں سے ایک خطرناک اثر یہ بھی ہوا ہے کہ جنہوں نے اصلاح کرنی تھی، وہ خود بھی اس سے کسی حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔
اور اب نظر اخلاقیات اور اصول وضوابط سے زیادہ ریٹنگ اور ویورشپ کی طرف اٹھنے لگی ہے۔ اسی دوڑ میں بعض اسلامی چینلز بھی ہیجان انگیز جنسی نوعیت کے تھمب نیلز استعمال کررہے ہیں۔
اگرچہ میاں بیوی کے تعلقات سے متعلق شرعی مسائل موجود ہیں اور ان کا جواب دینا ضروری ہے، لیکن ان مسائل کو اس انداز میں پیش کرنا جو عوام میں جنسی ہیجان پیدا کرے، شرعی لحاظ سے درست نہیں۔ اسلامی تعلیمات میں عفت، پاکدامنی اور حیا کو اولین ترجیح دی گئی ہے۔

موقع پر سائل نے جو الفاظ استعمال کیے وہ اس کی ثقافت کو شو کرتے ہیں یا اس کو درپیش مسئلے کی نوعیت واضح کرتے ہیں۔ لیکن کیا انہی الفاظ کی ہیڈنگ انہی الفاظ میں بنانا ضروری ہے؟ اس طرح کی ہیڈنگز اور تھمب نیلز کا عمومی اور سرعام استعمال کرنا بے حیائی کو فروغ دیتا ہے اور اسلامی وقار کے منافی ہے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 314)
میں ایک زبردست راہ نمائی موجود ہے۔ سائلہ کا انداز دیکھیے کیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل کیسا خوب صورت اور باوقار یے۔ “ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حیض کے غسل کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے اسے غسل کا طریقہ بتایا، پھر فرمایا: ‘ کستوری کا ایک ٹکڑا لو اور اس سے پاکی حاصل کرو’۔ اس عورت نے عرض کیا: میں اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ (عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے کو اپنے کپڑے کے ایک کونے سے ڈھانپ لیا اور فرمایا: ‘سبحان اللہ! اس سے پاکی حاصل کرو۔’ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: “میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچا اور کہا: اس سے خون کے نشانات کو صاف کرو۔”
اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شرم و حیا اور طہارت جیسے شرعی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے بھی برہنہ قسم کے الفاظ سے اجتناب کا ادب معلوم ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج مطہرات کے پاس آنے کو احادیث میں یطوف علی نسائہ۔۔سے بیان کیا گیا یے۔
اور کثرت سے احادیث میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے مسئلہ بھی واضح کیا گیاہے لیکن الفاظ وکلمات کے چناؤ میں شرم وحیاء کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔

5: اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ ایسے مسائل پوچھے نہیں جاسکتے۔ بالکل پوچھے جاسکتے ہیں۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: “انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں دین کا مسئلہ دریافت کرنے اور اس کو سمجھنے میں حیاء مانع نہیں ہوتی۔” اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوال کرنے میں حرج نہیں، ہم سوال کی ممانعت پر بات نہیں کر رہے، بلکہ سوال کے لیے الفاظ کے چناؤ کی بات کر ریے ہیں۔ بلکہ سائل کسی وجہ سے محتاط نہیں بھی رہ سکا تو مفتی صاحب کو بہر حال محتاط رہنا ہے۔ تھمب نیل میں احتیاط اور وقار پر توجہ ضروری ہے۔
6: حدود کا مسئلہ سنگین ہے، زنا کے ثبوت کے لیے واشگاف الفاظ میں اقرار ضروری ہے۔ یہ مجبوری میں آتا ہے۔
وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص وہی الفاظ استعمال کیے جس سے بدکاری کی آخری حالت ثابت ہو۔ حد کے نفاذ کے لیے یا اس طرح کی کسی تعلیمی، قانونی ضرورت کے تحت ایسے الفاظ استعمال کرنا بعض دفعہ مجبوری بن جاتی ہے۔ لیکن ویوز بڑھانے کے لیے ایسے الفاظ نامناسب ہیں۔
7: اسلامی فقہ میں”سد الذرائع” کا اصول موجود ہے، جس کا مطلب ہے کہ ان راستوں کو بند کر دیا جائے جو حرام کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہیجان انگیز جنسی عنوانات کا استعمال لوگوں کے دلوں میں برے خیالات کو جنم دے سکتا ہے، جو سد الذرائع کے خلاف ہے۔
8: اسی طرح فقہی قاعدہ ہے۔

“درء المفاسد مقدم على جلب المصالح”

(مفاسد کو دور کرنا مصالح کو حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے)۔ اگرچہ چینل کی ریٹنگ بڑھنا ایک مصلحت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے حیائی پھیلانا ایک بڑی مفسدہ کا پیش خیمہ ہے۔
9: ہیجان انگیز جنسی عنوانات اور تھمب نیلز کا استعمال نہ صرف چینل کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی کئی منفی اثرات مرتب کرتا ہے:

اس طرز کے عنوانات نوجوان نسل میں جنسی تجسس کو ابھارتے ہیں، جو انہیں غلط راستوں پر گامزن کر سکتا ہے۔
* حیا اور شرم کے جذبات کو کمزور کرتے ہیں، جو اسلامی معاشرے کی بنیادی قدریں ہیں۔
* لوگوں میں بے حیائی کو نارملائز کرتے ہیں اور اسے ایک عام بات بنا دیتے ہیں۔
10: اس طرح کی سرخیاں
* خاندان کے تقدس کو پامال کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔
تقدس کی چادر تو پہلے ہی تار تار ہے۔
ہم نے اس کو جوڑنا ہے بکھیرنا نہیں۔
11: بعض اوقات اس طرح کی ہیڈنگز اسلام کے حقیقی چہرے کو مسخ کرتی نظر آتی ہیں اور اسے ایک سطحی، جنسی نوعیت کے دین کے طور پر پیش کرتی ہیں، جو غیر مسلموں، ملحدوں اور اباحیت پسندوں کے سامنے اسلام کی غلط تصویر پیش کرتا ہے۔
بلکہ مفتیان کرام اور علماء کی عظمت کو بھی کم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
مدینہ یونیورسٹی کے ایک پی ایچ ڈی ایک مسجد میں دو مہینے حیض ونفاس کے مسائل پر مسلسل درس دیتے رہے۔ تیسرے مہینے ان کی چھٹی کرا دی گئی۔
کیونکہ سامعین اکتا گئے اور مزید یہ کہ کچھ سامعین تربیت کے لیے اپنی محارم کو ساتھ لاتے تھے۔انہیں شرم محسوس ہونے لگی۔

12: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دامادی کے رشتے کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص مسئلے میں راہ نمائی لیتے ہوئے کیوں شرم محسوس کی تھی؟
کیونکہ موقع و محل اور تعلق میں بھی ایک خاص حیا ہوتا ہے۔

13: بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ عالم اور مفتی کو ہر مسئلے میں راہ نمائی دینی ہوتی ہے۔ ہر طرح کے سوالات کو فیس کرنا پڑتا ہے، لیکن ان کے لیے
۔۔۔ الفاظ کا انتخاب، سرخیاں اور تھمب نیلز باوقار اور شرم و حیا کی عکاسی کرنے والے ہونے چاہئیں۔

۔۔۔ سادہ اور علمی انداز میں باوقار سرخیاں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
۔۔۔ جنسی مسائل کو براہ راست پیش کرنے کی بجائے اشارتاً اور باحیا انداز میں پیش کیا جائے۔

*تھمب نیلز پر کسی قسم کی ایسی تصویر،علامت یا جملہ نہ ہو جو جنسی ہیجان پیدا کرے یا حیا کے منافی ہو۔

۔۔۔ مفتی کو مسئلے کا جواب دیتے وقت یہ احساس ہو کہ وہ ایک عام پلیٹ فارم پر بات کر رہے ہیں جہاں ہر قسم کے لوگ مخاطب ہیں۔
۔۔۔ مقصد صرف ریٹنگ بڑھانا نہیں، بلکہ لوگوں کو صحیح اسلامی تعلیمات
سے آگاہ کرنا واحد ہدف ہونا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور بہتر سے بہترین کی طرف سفر کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

یہ بھی پڑھیں: صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی رفاقتِ نبوی