’’ہر دلعزیز داعی‘‘

داعی کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ سبھی کو خوش رکھے، بلکہ برے لوگ ہمیشہ اُس سے نالاں رہتے ہیں، جب وہ نیکی کی ترغیب دے گا اور برائی کو روکنے کی کوشش کرے گا تو لامحالہ طور پر ایک طبقہ اُس کے خلاف ہوگا کیونکہ داعی کی دعوت اُن کی خواہشات اور من مانیوں میں رکاوٹ بنے گی۔ یہ ہر گروہ کو خوش رکھنے کی ذمہ داری انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی نہیں دی گئی، بلکہ انہیں بھی اَپنے اَپنے دور کے برے لوگوں کی مخالفت ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا ۔

اسی لیے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (١٦١هـ) سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :اگر کسی بندے کے تمام پڑوسی، محلہ دار اُس کی تعریف کریں تو وہ برا آدمی ہے۔ پوچھا گیا وہ کیسے ؟ فرمایا :
يَرَاهُمْ يَعْمَلُونَ بِالْمَعَاصِي فَلَا يُغَيِّرُ عَلَيْهِمْ، وَيَلْقَاهُمْ بِوَجْهٍ طَلْقٍ.
’’وہ انہیں گناہ کرتا دیکھ کر روکتا نہیں بلکہ کشادہ چہرے سے مسکرا کر ملتا ہے۔‘‘
(حلية الأولياء لأبي نعيم : ٧/‏٣٠، الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر للمقدسي، صـ ٥٣)

ہمارے ہاں کسی داعی کی خوبیوں میں ذکر کیا جاتا ہے کہ اُسے سبھی سنتے ہیں۔ حالانکہ یہ خوبی نہیں بلکہ دعوت میں نقص کی علامت ہے، بھلا کیسے ممکن ہے کہ کسی غلط عقیدے کی اِصلاح ہو اور غلط عقیدے والے پر ناگوار نہ گزرے؟ بدعات کا رد ہو اور بدعتی خوشی سے گلے لگاتا رہا، گناہ کی شناعت وقباحت بیان ہو اور خواہش پرست ناپسیندگی کا اِظہار نہ کرے؟ ایسا داعی لازماً مداہنت کا شکار ہوگا ۔ جیسا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ہی مروی ہے :
إِذَا رَأَيتَ الرَّجُلَ مُحَبَّبًا إِلَى جِيْرَانِهِ، فَاعْلَمْ أَنَّهُ مُدَاهِنٌ.
’’اگرآپ کسی بندے کو دیکھیں کہ وہ اپنے سب پڑوسیوں کا محبوب ہے تو جان لیں کہ وہ مداہنت کا شکار ہے۔‘‘
(سير أعلام النبلاء للذهبي، ط الحديث : ٦/‏٦٥٠)

مطرف بیان کرتے ہیں، امام مالک رحمہ اللہ (١٧٩هـ) نے مجھ سے پوچھا :
لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا:دوست تعریف کرتا ہے اور دشمن طعن وتشنیع۔ فرمایا :
مَا زَالَ النَّاسُ كَذَا لَهُمْ صَدِيقٌ وَعَدُوٌّ وَلَكِنْ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ تَتَابُعِ الْأَلْسِنَةِ كُلِّهَا.
’’لوگوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہی ایسا رہا ہے، اُن کے دوست بھی ہوتے ہیں اور دشمن بھی۔ لیکن ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ سارے لوگ ایک ہی بات کہنا شروع کر دیں۔‘‘
(حلية الأولياء لأبي نعيم : ٦/‏٣٢١)

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ