سوال (2667)

حفظ کی کلاس میں بچوں کی عادت ہے کہ وہ پڑھتے ہوئے ہلتے ہیں، اب سوشل میڈیا میں کلپیں آئی ہیں کہ یہودی بھی تورات پڑھتے ہوئے ہلتے ہیں، کیا یہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہیں ہے یا یہ چیز مشابہت میں آئے گی۔

جواب

بعض علماء نے کہا ہے کہ تلاوت کے دوران بغیر کسی ضرورت کے جو تحرک ہے، یہ یہودیت کی طرف سے وارد ہوا ہے، اس سے اجتناب اولی ہے، لیکن سخت فتویٰ نہیں دیا جائے، باقی اس حوالے سے میری بات حفظ کے اساتذہ سے ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ اس میں نشاط اور چستی ہے، ورنہ بچے سو جاتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

جی نہیں یہودیوں کے ساتھ مشابہت میں نہیں آئے گا۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

حفظ کے طلباء کے سبق یاد کرنے میں توجہ اور طبیعت میں نشاط باقی رکھنے کے لیے تدابیر میں سے ایک تدبیر یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ متحرک رہے، یعنی آگے پیچھے ہلتا رہے، جس طرح بلب کا بٹن دبانے سے بلب میں کرنٹ پیدا ہو جاتا ہے اور بلب روشن و سرگرم عمل نظر آتا ہے، اسی طرح سبق وغیرہ یاد کرتے وقت ایک مخصوص نظام تسلسل کے ساتھ بغیر تکلف کے آگے پیچھے ہلنے سے طبیعت میں ہمت و طاقت اور جسمانی اعضا میں نشاط و چستی پیدا ہوتی ہے۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

قرآن پڑھتے، یا سنتے وقت جھومنا، ہاتھوں کو ہلانا یہ صوفیوں کا طریقہ ہے۔ اہل ایمان کا طریقہ نہیں۔ قراءت کی کانفرسوں میں بھی اکثر لوگ ہاتھ لہرا کر، اور ہل کر تلاوت سن رہے ہوتے یہ معیوب عمل ہے۔ لیکن قرآن یاد کرتے وقت بچوں کا ہلنا، یہ اس طرح جھومنے کے حکم میں نہیں۔ بلکہ جسمانی، ذہنی فوائد کے حصول کا باعث ہے۔ لہذا اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ