سوال

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر سلایا تھا کہ آپ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے آ جانا،اس واقعہ کے بارے میں کچھ مفسرین کی رائے ہے کہ یہ ضعیف ہے، مہربانی فرما کر وضاحت کر دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

امانتیں واپس کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بستر پر سلانا یہ واقعات سیرت و حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن سند کسی کی بھی صحیح نہیں ہے۔ محدثین نے ان واقعات کی سند پر کلام کیا ہے کیونکہ ان میں کچھ راوی مجہول اور کمزور ہیں۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں :«مسند أحمد» (5/ 185 ط الرسالة مع الحاشية)

اگر اس بات کو صحیح تسلیم کیا جائے تو اس سےیہ بھی واضح ہو گا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو ہجرت کی تھی تبھی تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے بستر پر سلا کر تشریف لے گئے تھے۔جبکہ حدیث میں ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےعین دوپہر کے وقت ہجرت  کی ہے۔

جیساکہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“لَقَلَّ يَوْمٌ كَانَ يَأْتِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا يَأْتِي فِيهِ بَيْتَ أَبِي بَكْرٍ أَحَدَ طَرَفَيِ النَّهَارِ، فَلَمَّا أُذِنَ لَهُ فِي الْخُرُوجِ إِلَى الْمَدِينَةِ لَمْ يَرُعْنَا إِلَّا وَقَدْ أَتَانَا ظُهْرًا، فَخُبِّرَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ إِلَّا لِأَمْرٍ حَدَثَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ: أَخْرِجْ مَنْ عِنْدَكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هُمَا ابْنَتَايَ يَعْنِي عَائِشَةَ وَأَسْمَاءَ، قَالَ: أَشَعَرْتَ أَنَّهُ قَدْ أُذِنَ لِي فِي الْخُرُوجِ، قَالَ: الصُّحْبَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الصُّحْبَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدِي نَاقَتَيْنِ أَعْدَدْتُهُمَا لِلْخُرُوجِ، فَخُذْ إِحْدَاهُمَا، قَالَ: قَدْ أَخَذْتُهَا بِالثَّمَنِ”. [صحیح البخاری:2138]

’مکی زندگی میں بہت ہی کم دن ایسے آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی گئی، تو ہماری گھبراہٹ کا سبب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معمول کے خلاف اچانک ظہر کے وقت ہمارے گھرتشریف لائے،  جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہمارے یہاں کوئی نئی بات پیش آنے کی وجہ سے ہی تشریف لائے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  کہ اس وقت جو لوگ تمہارے پاس ہوں انہیں ہٹا دو، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! یہاں تو صرف میری یہی دو بیٹیاں ہیں یعنی عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہمااب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  کہ تمہیں معلوم بھی ہے مجھے تو یہاں سے نکلنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں جنہیں میں نے نکلنے ہی کے لیے تیار کر رکھا تھا۔ آپ ان میں سے ایک لے لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، قیمت کے بدلے میں، میں نے ایک اونٹنی لے لی۔

اس حدیث میں  دوپہر کا وقت ہے رات کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا امانتیں لوٹانے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بستر پر سلانے والی بات صحیح نہیں ہے۔ ہجرت کے حوالے سے اور بھی بہت ساری باتیں بیان کی جاتی ہیں ، جن  کی کوئی اصل نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ