مغربی ممالک میں منعقد ہونے والے بڑے بڑے احتجاجی جلسوں سے زیادہ پرامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے بڑے جلوس اور احتجاجی مظاہرے عراق کی جنگ کے خلاف نکلے تھے مگر مغربی ممالک کی پبلک پالیسی اور فارن پالیسی اسی نہج پر قائم رہی۔ عوامی سطح پر دکھانے کے لئے کچھ انکوائری کمیشن وغیرہ بعد از خرابی بن جاتے ہیں جس کے بعد بھی ٹونی بلئیر جیسے مکروہ کردار جنگی جرائم پر غیر مشروط معافی تک نہیں مانگتے۔ جو ظلم و ستم اس وقت برپا ہے اس سے ثنا خوان یورپ و امریکہ بھی بری طرح ایکسپوز ہو رہے ہیں کہ جنہیں ہر بھلائی وہاں اور ہر برائی اپنے ہاں نظر آتی ہے۔

ٹریفک کے اشاروں سے لے کر ماحولیات کے تحفظ اور ہم جنس شادیوں کے حقوق کے لئے تڑپنے والوں کے ملکوں میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو متعصب لوگوں کی ٹولیاں پر فضا مقامات اور پہاڑیوں پر بنے گھروں سے نکل کر جوق در جوق جنگ، نفرت، تعصب اور ظلم کی سیاست کرنے والے جماعتوں اور شخصیتوں کو ووٹ دے کر واپس لوٹتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کے پیش نظر اپنی معیشت کی مضبوطی، مقامی لوگوں کی باہر سے آئے ہوئے لوگوں پر فوقیت، اسائیلم قوانین کی سختی، مقامی نوکریوں کے تحفظ، یورپی نسل پرستی اور بالادستی کا فلسفہ، اسلام کے ساتھ نفرت کی تاریخ و جینیاتی سطح پر اس کی کوڈنگ وغیرہ پر مبنی دلائل ہوتے ہیں۔ یہ کہانی یورپ و امریکہ کے ہر ملک کی ہے اور یہی ایک حقیقت ہے۔ چند شہروں میں ہونے والے احتجاجی جلوسوں کی بنیاد پر امید قائم کرنا محض سادگی ہے۔

ادھر غزہ کے اندر نو مولود بچوں کی لمحوں میں اس دنیا سے رخصت ہونے کی دل فگار تصاویر اور ویڈیوز ہیں جن کو دیکھنے کی سکت نہیں ہے۔ ہسپتال کے اندر بھی ان صیہونی درندوں نے زخمیوں کو معاف نہیں کیا۔ اس “مہذب دور” میں بھی نسل کشی اس سطح پر کی جارہی ہے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی مگر کوئی اسرائیل کو روکنے والا نہیں ہے۔ اپنوں نے تو کچھ کرنا ہی نہیں ہے۔ ان کی تو بات کرنا بھی عبث ہے۔

عزیز الرحمٰن