سوال (1336)
ایسا ادارہ جس میں مستحقین بچوں کا مفت میں علاج زکوة کی رقم کے ذریعے کیا جا رہا ہو ، کیا اس ادارے کے عملے جس میں ڈاکٹر اور نرسز شامل ہیں ان کی تنخواہیں زکوة کے پیسے سے ادا کی جا سکتی ہیں ؟ کیا یہ جائز ہے کہ ادارے سے کچھ ایسے لوگ بھی علاج کروا رہے ہوں جو مستحق نہیں ہوں، حالانکہ یہ طبی ادارہ زکوة کے پیسوں سے چل رہا ہو؟
جواب
یہ زکاۃ کا مصرف نہیں ہے ، ہسپتال تو لاکھوں سے بھی نہیں چلتے ہیں ، زکاۃ مستحقین کو دے دی جائے ۔ بوقت ضرورت وہ جہاں سے مناسب ہوگا علاج کروالیں گے۔ ایسے ہسپتالوں میں سارے ہی مستحقین زکاۃ نہیں آتے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
جیسے آپ نے بات کی ہے ، ویسے ہی ہو رہا ہے ، ہسپتال والے دوا کے لیے زکاۃ و صدقات جمع کرتے ہیں ، قربانی کی کھالیں بھی لے لیتے ہیں ، اس طرح بہت ڈونیشن جمع کر لیتے ہیں ، اب اس سے تعمیراتی کام بھی کرواتے ہیں ، ڈاکٹرز کو گاڑیاں بھی دلاتے ہیں ، بڑی مہنگی ان کی فیسیں بھی ادا کرتے ہیں ، غیر مستحق بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں ، یہ براہ راست زکاۃ مصرف نہیں ہے ، البتہ وکالت کرتے ہوئے کسی ڈاکٹر کو زکاۃ دی جا سکتی ہے کہ جو مستحق آئے اس کا علاج کریں ، یہ جو طریقہ چلا ہوا ہے کہ زکاۃ جمع ہو رہی ہے ، حتی کہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ پچاس ہزار آپ نے زکاۃ کےدے دیے ہیں ، اب آپ کی فیملی کا علاج مفت میں ہوگا جب تک آپ زندہ ہیں ، یہ واضح ہے کہ آپ اپنی زکاۃ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ، اس کی حدبندی ہونی چاہیے ، ذمے داران کو دے کر یہ بتایا جائے کہ یہ صرف مستحقین پر خرچ کرنا ہے ، اگر آپ اس کو بیت المال ہی سمجھتے ہیں تو پھر اس کی اجازت ہے جہاں خرچ کرے ، لیکن حقیقت میں یہ بیت المال نہیں ہے ، لیکن لوگ اس طرح کرتے ہیں ، کہ ہم نے زکاۃ وصول کی ہے ، ہم دیانتداری کے ساتھ خرچ کریں گے ، جہاں ہمارا دل چاہے گا، لیکن یہ کمزور موقف ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ