حرمِ مکی میں نماز کی فضیلت

⇚سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

﴿صَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ﴾.

’’مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری جگہ ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه : ١٤٠٦)
اس حدیث میں مسجد حرام سے کیا مراد ہے؟ کیوں کہ قرآن مجید میں ’’مسجد حرم‘‘ کئی معانی میں آیا ہے۔ صرف خانہ کعبہ کے لیے (البقرة : ١٤٤)، مسجد بیت اللہ کے لیے (التوبة : ١٩)، مکہ شہر کے لیے (البقرة : ١٩٧)، اور سارے حرم مکی کے لیے بھی(التوبة : ١٢٨)۔

اسی بنیاد پر علماء کے سات اقوال ہیں کہ کیا لاکھ نماز کا ثواب خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہے؟ مسجد بیت اللہ کے ساتھ خاص ہے؟ پورے مکہ کے لیے ہے؟ یا حدود حرم کی تمام مساجد کے لیے ہے؟ وغيرہ۔ (إعلام الساجد للزركشي صـ ١٢٠)

ان اقوال میں سب سے صحیح قول یہ ہے کہ نماز کی فضیلت کا یہ حکم پورے حدودِ حرم کے لیے ہے۔ لہذا حرمِ مکی کی لگی معروف حدود کے اندر اندر جہاں بھی نماز ادا کی جائے گی، یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فضیلت ’’المسجد الحرام‘‘ کے لیے بیان کی ہے اور جب قرآن و حدیث میں یہ عموم میں آئے اور تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو اس سے مراد سارا حرمِ مکی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

«إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا».

’’اے ایمان والو! مشرک ناپاک لوگ ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘ (التوبة : ٢٨) اس آیت میں مسجد حرام سے مراد بلا خلاف ’’حرم مکی‘‘ مراد ہے۔ (المحلى ٥/ ١٤٩، مجموع الفتاوى لابن تيمية : ٢٢/ ٢٠٧)

⇚اس طرح اس پر ایک واضح قرینہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ مقامِ حدیبیہ پر حدودِ حرم سے باہر مقیم تھے تو حرم میں داخل ہو کر نماز ادا کیا کرتے جیسا کہ حدیث میں ہے :

«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْحَرَمِ وَهُوَ مُضْطَرِبٌ فِي الْحِلِّ».

’’رسول اللہ ﷺ حدودِ حرم میں نماز ادا کرتے جبکہ آپ حرم سے باہر مقیم تھے۔‘‘ (مسند أحمد : ١٨٩١٠)

⇚حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (٧٥١هـ) فرماتے ہیں :

فِي هَذَا كَالدَّلَالَةِ عَلَى أَنَّ مُضَاعَفَةَ الصَّلَاةِ بِمَكَّةَ تَتَعَلَّقُ بِجَمِيعِ الْحَرَمِ، لَا يُخَصُّ بِهَا الْمَسْجِدُ الَّذِي هُوَ مَكَانُ الطَّوَافِ.

’’اس حدیث میں گویا دلالت ہے کہ مکہ میں نماز کے اَجر کی زیادتی سارے حرم کے بارے ہے، نہ کہ اس صرف مسجد کے ساتھ خاص ہے جہاں طواف ہوتا ہے۔‘‘
(زاد المعاد – ط عطاءات العلم : ٣/‏٣٦٠)

⇚امام شافعی رحمہ اللہ (٢٠٤هـ) نے ذکر کیا ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حدودِ حرم میں ہے اور کچھ باہر ہے۔
(الأم ٢/ ٣٤١)

⇚ ربیع بن صبیح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام عطاء بن رباح تابعی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی جو فضیلت ہے، یہ صرف مسجد کے ساتھ خاص ہے یا پورے حرم کے ساتھ؟ تو انہوں نے فرمایا :

لَا، بَلْ فِي الْحَرَمِ، فَإِنَّ الْحَرَمَ كُلَّهُ مَسْجِدٌ.

’’نہیں، بلکہ پورا حرم کیوں کہ پورا حرم ہی مسجد ہے۔‘‘
(مسند أبي داود الطيالسي : ١٤٦٤ وسنده حسن)

یہ قول جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ (الموسوعة الفقهية : ٢٧/ ٢٣٩، بدائع الصنائع : ٢/ ٣٠١، تفسیر قرطبي : ٣/ ١٢٧٥، مغني المحتاج : ٦/ ٦٧)

⇚شیخ عبد العزيز ابن باز رحمہ اللہ (١٤٢١هـ) فرماتے ہیں :

أن الصلاة في المسجد الحرام هنا بمائة ألف، والصواب أنه يعم الحرم كله.

’’یہاں یعنی مسجد حرام میں ایک نماز ہزار کے برابر ہے اور درست بات یہ ہے کہ یہ فضیلت سارے حرم کے لیے ہے۔‘‘
(مجموع فتاوى ابن باز : ٣٠/‏ ٢٢)

⇚نیز فرماتے ہیں :

أن المضاعفة تعم جميع الحرم لعموم الآيات والأحاديث الدالة على أن الحرم كله يسمى المسجد الحرام.

’’نماز کا لاکھ گنا ہونا پورے حرم کے لیے ہے، کیوں کہ آیات واحادیث کا عموم دلالت کرتا ہے تو سارے حرم کو ’’مسجد حرام‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘ (أيضا : ١٢/ ٢٣٠)

⇚شیخ محمد اثیوبی رحمہ اللہ (١٤٤٢هـ) فرماتے ہیں :

اَلصَّحيحُ أنه يعمُّ الحرمَ كلَّهُ.

’’صحیح قول یہ ہے کہ یہ فضیلت پورے حرم کے لیے ہے۔‘‘
(البحر المحيط : ٢٤/ ٦٨٤)

⇚فتاوى اللجنه الدائمه کے علماء (شیخ ابن باز، شیخ بکر بو زید رحمہما اللہ، شیخ صالح الفوزان، شیخ عبد العزيز آل شیخ حفظہم اللہ) نے بھی اسی قول کو راجح قرار دیتے ہوئے فرمایا :

فالصلاة في المسجد الحرام عن مائة ألف صلاة فيما سواه، وذلك يشمل الحرم كله مما هو داخل الأميال على الصحيح.

’’مسجد حرام میں ایک نماز اس کے علاوہ پڑھی گئی لاکھ نمازوں کے برابر ہے اور صحیح قول کے مطابق یہ حکم پورے حرم مکی میں پڑھی گئی نماز کے متعلق ہے۔‘‘
(فتاوى اللجنة الدائمة – المجموعة الثانية : ١٠/‏٦)

یہی قول راجح اور أقرب إلی الصواب ہے، کیوں کہ المسجد الحرام اپنے عموم میں سارا حرم ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اس آیت سے سارا حرم مکی مراد ہے۔ لہذا اس حدیث کو مسجد بیت اللہ کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔

⇚بعض اہلِ علم نے اُس حدیث سے تخصیص پر دلیل لی ہے جس میں مسجد حرام کی بجائے مسجد کعبہ کا ذکر ہے۔ (صحیح مسلم : ١٣٩٦، فتاوى ورسائل ابن العثيمين : ١٢/ ٣٩٥) لیکن مسجد کعبہ سے تخصیص اس لیے درست نہیں کہ کعبہ بھی قرآن مجید میں پورے حرم کے لیے آیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ﴾ [المائدة: ٩٥]

علماء کا کوئی اختلاف نہیں کہ یہاں کعبہ سے مراد سارا حرم مکی ہے۔ (تفسير قرطبي : ٦/ ٣١٤) اس اعتبار سے مسجدِ کعبہ بھی اپنے عموم میں سارے حرم کو شامل ہے تو اس کے ساتھ ’’مسجد حرام‘‘ کی تخصیص کیونکر ہو سکتی ہے؟

بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ لاکھ نماز کے برابر ثواب کا تعلق پورے حدودِ حرم کے ساتھ ہے۔ جہاں بھی نماز ادا کی جائے یہ فضیلت حاصل ہو جائے گی۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسجد بیت اللہ میں نماز کی فضیلت زیادہ ہے۔ کیوں کہ یہ بیت اللہ کے قریب ہے، اس میں نماز کی فضیلت پر اجماع ہے اور نمازی بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ (مجموع فتاوى ابن باز : ١٢/‏٢٣٠)

والله أعلم بالصواب.

… حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ
المسجد الحرام، ٧ جمادى الأولى ١٤٤٦هـ

یہ بھی پڑھیں: طلبۂ علم اور مطالعہ کا شوق