سوال
حج و عمرہ کے موقع پر حرم میں وضو کے طریقے کے حوالے سے ایک مولانا صاحب کی ویڈیو دیکھی، جس میں وہ ایک فوارے والی بوتل سے وضو کا مختصر اور آسان طریقہ بتارہے تھے، فرماتے ہیں:
حج و عمرہ میں آپ فوارے والی بوتل ساتھ رکھیں، اسکا فائدہ یہ ہے کہ آپ حرم بیٹھے ہوئے ہوں اور آپ کا وضو ٹوٹ جائے، تو اگر آپ حرم سے باہر وضو کرنے کے لیے نکلیں گے، تو وضو کرکے دوبارہ حرم میں داخل ہونا ممکن نہیں، اور آپ نے وضو بھی کرنا ہے اور جماعت کیساتھ نماز بھی پڑھنی ہے، تو اگر آپ نے فوارے والی بوتل میں پانی بھر کر ساتھ رکھا ہوا ہوگا، تو آپ اس پانی والی بوتل کو نکالیں اور اس سے وضو کرلیں، اس سے وضو کا طریقہ بہت آسان ہے۔
اب وضو کا طریقہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں، پھر کلی کی جائے، پھر ناک میں پانی چڑھایا جائے وغیرہ، لیکن یہ سب فرض نہیں ہے، اگر یہ نہیں بھی ہوگا تو وضو ہوجائے گا۔ اس لیے آپ صرف وضو کے چار فرائض ادا کریں۔ باقی کلی اور استنشاق وغیرہ رہنے دیں۔
وضو کا طریقہ
اپنی جھولی میں ایک ٹاول، رومال یا کوئی کپڑا رکھیں اور پھر وضو کے چار فرائض ادا کریں:
1: پہلا فریضہ، سب سے پہلے مکمل چہرے پر فوارے سے پانی چھڑکیں، فقہ کا اصول یہ ہے کہ آپ نے جس عضو وضو کو دھونا ہے، اس سے ایک دو قطرے پانی ٹپک جائے تو اسکو دھلا ہوا سمجھا جائے گا۔
2: دوسرا فریضہ، انگلیوں سے لے کر کہنیوں سمیت دونو ہاتھ دھونا۔ ان پر بھی بوتل کے فوارے سے پانی چھڑکیں اور گیلا کردیں۔
3: اسکے بعد دونوں ہاتھوں کو گیلا کرکے سر کا مسح کرلیں۔
4: اور پھر اسی طرح دونوں پاؤں پر پانی چھڑک کر دھولیں۔
اس طرح آپ کا وضو ہوجائے گا، نہ دریا بہے گا نہ نالی چلے گی، آسانی سے حرم میں بیٹھے بیٹھے وضو ہوجائے گا۔ ایسا ہی آپ جہاز میں کرسکتے ہیں، ایسا ہی آپ ٹرین اور بس میں کرسکتے ہیں، اور اسی طرح کسی بھی مجمع میں کرسکتے ہیں۔ اس سے آپ ہمیشہ باوضو رہ سکتے ہیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
1: وضو کا جو طریقہ اس ویڈیو میں بیان کیا گیا ہے، اس طرح مکمل وضو نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات ضروری نہیں ہے کہ جو بات قرآن میں ہوگی، وہی فرض ہے، جو حدیث میں ہو وہ فرض نہیں ہے۔ بلکہ جس بات کا قرآن میں حکم ہو جس طرح وہ فرض ہے، اسی طرح جس بات کا حدیث میں حکم ہو، وہ بھی فرض ہے۔
وضو کے چار ارکان سورہ مائدہ آیت نمبر 6 میں بیان ہوئے ہیں۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
“يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ اِلَى الۡمَرَافِقِ وَامۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِكُمۡ وَاَرۡجُلَكُمۡ اِلَى الۡـكَعۡبَيۡنِ”. [المائدة: 06]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پائوں ٹخنوں تک (دھو لو)‘‘۔
وضو کرتے ہوئے استنشاق کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:
“بَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا”. [سنن أبی داؤد: 2366]
’تم (وضو کرتے ہوئے) ناک میں خوب پانی چڑھاؤ ، سوائے اس کے کہ روزے سے ہو‘۔
اسی طرح وضو میں کلی کے متعلق ایک حدیث میں الفاظ ہیں:
“إِذَا تَوَضَّأْتَ فَمَضْمِضْ”. [سنن أبی داؤد: 144]
’جب تو وضو کرے تو کلی کر‘۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا وضو نہیں کیا کہ کلی و استنشاق کے بغیر سیدھا منہ دھو لیا ہو، یا کلی و استنشاق چھوڑ کر وضو مکمل کر لیا ہو۔ نہ ہی کسی صحابی سے ایسا منقول ہے۔
لہذا کلی اور استنشاق کا ذکر اگرچہ قرآن کریم میں نہیں ہے، لیکن چونکہ احادیث میں صریح حکم وارد ہے، اس لیے ان کو چھوڑنے سے بھی وضو باطل یا کم از کم ناقص ہو جاتا ہے۔
2: دوسری بات یہ ہے کہ صرف چھینٹے مار دینا کافی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرتے وقت اعضائے وضو پر پانی بہاتے تھے، انہیں ملتے بھی تھے۔ صرف چھڑکنے سے پانی بہنے کی کیفیت نہیں بنتی۔
اسی طرح کلی اور ناک میں پانی ڈال کر ناک کی صفائی منہ دھونے میں شامل ہے، کیونکہ یہ منہ کا حصہ ہے، لہٰذا ان کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک چھوٹے سے تولیے پر یہ سب کرنا ممکن نہیں۔ اگر یہ طریقہ اپنانا ہی ہے تو اچھے طریقے سے اپنایا جائے، مثلاً چھوٹا سا ٹب اور بوتل ساتھ رکھی جائے، تاکہ وضو کرتے وقت پانی انڈیلا جا سکے۔ اس طرح کامل وضو ہوجائے گا، اس کی تو گنجائش ہے۔
کلی کے بارے میں علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ صرف منہ میں پانی ڈالنے کو کلی نہیں کہتے، بلکہ منہ میں پانی ڈال کر گھمانا اور باہر نکالنا کلی کہلاتا ہے۔ اسی طرح ناک میں پانی کم از کم نتھنوں تک ضرور پہنچنا چاہیے۔
3: حرم میں داخل ہونا یقیناً آسان نہیں ہوتا، لیکن اتنا بھی مشکل نہیں کہ آدمی کا وضو ٹوٹ جائے اور وہ وضو کرنے کے لیے باہر نہ جا سکے۔ وہاں بہت لمبا چوڑا وضو خانوں کا وسیع انتظام ہے، انسان کو کسی قسم کی مشکل نہیں ہوتی۔ باہر نکل کر واپس آنا بھی اتنا مشکل نہیں کہ واپس آیا ہی نہ جاسکے، حرم میں دوبارہ داخلے میں کوئی رکاوٹ نہیں، سوائے گراؤنڈ فلور کے، اسکے لیے افادہ عام کی خاطر ایک خاص شرط رکھی گئی ہے کہ وہاں وہی لوگ جاسکتے ہیں جنہوں نے احرام باندھا ہو، جو احرام میں نہ ہوں، حاجی و معتمر نہ ہوں، وہ اوپر والی منزلوں میں جا سکتے ہیں۔
اس لیے جو آدمی تندرست و توانا ہو، حرم کے اندر داخل ہو چکا ہو، اگر اس کا وضو ٹوٹ جائے، تو اسے چاہیے کہ باہر نکلے، وضو کرے اور دوبارہ واپس آئے۔ اگر نیچے نہیں جا سکتا تو اوپر چلا جائے۔ اور اگر احرام میں تھا، تو پھر واپس حرم کے گراؤنڈ میں جانے سے کوئی نہیں روکے گا، اس لیے اندر جانا اتنا مشکل نہیں جتنا بتایا جارہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ حرم کے اندر بھی کئی جگہوں پر وضو کرنے کی گنجائش ہے۔ چاروں طرف کی دیواروں کے ساتھ نیچے اور اوپر پانی کی ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں، جن کے نیچے نکاسی کا مناسب انتظام ہے۔ وہاں بآسانی مکمل وضو کیا جا سکتا ہے۔ ہاں البتہ وہاں استنجاء کی سہولت نہیں ہے، اس کے لیے باہر ہی جانا ہوگا۔
4: نماز کے لیے وضو شرط ہے، وضو کے بغیر نماز نہیں ہوگی، اس بات سے کسی کو انکار نہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ مَنْ أَحْدَثَ حَتَّى يَتَوَضَّأَ”. [صحیح البخاری: 135]
’جو شخص بے وضو ہوجائے، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ ( دوبارہ ) وضو نہ کر لے‘۔
جن اعضائے وضو کو دھونے کا حکم قرآن میں آگیا وہ بھی فرض ہیں، اور جو چیزیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں چھوڑیں، اور جنہیں اہل علم نے واجب قرار دیا ہے، ان کو بھی چھوڑنا جائز نہیں، انکے بغیر وضو مکمل نہیں ہوگا ۔
ہاں البتہ اگر واقعی کوئی مجبور و معذور شخص ہو، جس کے لیے نقل و حرکت بہت مشکل ہو، اس کے لیے گنجائش نکالی جا سکتی ہے، جیسے مجبور و معذور کے لیے بعض واجبات بھی ترک کرنا جائز ہوتا ہے، جیسے بیماری اور معذوری کی حالت میں نماز میں قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ چھوڑے جاسکتے ہیں، یہ تمام سہولتیں صرف مجبور و معذور کے لیے ہیں۔
لیکن مذکورہ صورت میں کوئی ایسی مجبوری نظر نہیں آرہی کہ وضو کی کئی ضروری چیزوں کو چھوڑ کر صرف قرآن میں مذکور چار فرائض ادا کرلیے جائیں۔
لہٰذا اس طرح وضو کرنا درست نہیں جس میں وضو کے کئی واجبات ترک کردیے جائیں، اس طریقے سے وضو کو ناقص اور ادھورا کرنا عبادات کو ضائع کرنے کے مترادف ہے، جبکہ وضو کا مسنون طریقہ وہی ہے، جو قرآن اور سنت رسول سے ثابت ہے، کہ بسم اللہ پڑھ کر دونوں ہاتھوں کو دھونے سے شروع کیا جائے، پھر کلی کرنا، استنشاق (ناک میں پانی ڈالنا) اور باقی تمام فرائض و ارکانِ وضو اس میں شامل ہیں۔
ان سب چیزوں کو چھوڑ کر ڈائریکٹ منہ اور ہاتھ دھونا اور دھونا بھی کیا صرف اسپرے سے گیلا کرلینا صحیح نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ