اجتماعی یا انفرادی زندگی کے متعلق کسی بھی مذھبی حکم اور قید کی حکمت سمجھنے سے پہلے ہمیں وہ حکم اپنے نفس اور گھر پر اپلائے کرنا چاہیے کافی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ حکمت ہمیں سمجھ آجائے..!
اگر پھر بھی کسی حکم شرعی کی حکمت سمجھ نہ آئے تو ایک مذھب کو ماننے والے انسان کے لائق یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر اس حکم الٰہی کے سامنے سرنگوں ہوجائے جو شریعت سے ثابت ہو.!
یہی رویہ ایک کامل مسلمان کا ہونا چاہیے اللّٰہ تعالیٰ عباد الرحمٰن کی صفات کو بیان کرتے ہوئے قرآن میں فرماتے ہیں: وَ الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِّرُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ لَمۡ يَخِرُّوۡا عَلَيۡهَا صُمًّا وَّعُمۡيَانًا.’
اور وہ( لوگ)کہ جب انھیں ان کے رب کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جائے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے(الفرقان:٧٣)
یعنی الله کے بندے پہلے رب کی آیات کو بصیرت و حکمت کے شاخسانے سے گزارتے ہیں اور انکو سمجھتے ہیں نہ کہ گونگے بہرے ہوکر سننے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں..!
ایک وقت تھا کہ دنیا روایات اور مذھبی تعلیمات کے مابین توافق سمجھنے کی کوشش میں تھی کیونکہ انہیں اس وقت اپنے قبائلی روایات اور تھذیب سے دین کا امتزاج کرنا تھا کیونکہ دونوں چیزیں ہی انکے ہاں مقدس تھیں لیکن اس وقت دنیا عقل و علت کی تلاش میں الحاد کی یرغمالی کے سبب ہر چیز کو سانئسی پس منظر سے ہم آہنگ ملتی ہے اور یہ موجودہ دور کے انسان کیلئے مقدس ہے.!
مذھب کو قدامت پسندی اور رجعت پسندی سے تعبیر کرکے تعقل کو مقدم رکھنا موجودہ انسان کی اولین ترجیحات میں سے ہے فلھذا اسی کے سبب مشرقی لوگ بالخصوص مغربی لوگ مذھب کو الحاد کے سامنے لا کر خود مذھب سے آزاد ہوئے جارہے ہیں.
بجائے اسکے کہ مذھبی احکام کو سمجھا جائے اور مذھبی قیود کو عقلی شاخسانے سے ہم آہنگ کیا جائے اسکا انکار کر رہے ہیں اور یہ سب وہ آزادی کی وجہ سے کررہے ہیں جو کہ لبرل اور سیکولر ذھن کی خاصیت ہے.!
ایک لبرل ذھن کسی بھی روایتی یا مذھبی اصول کو پہلے ذھنی گھٹن سے تعبیر کریگا اور پھر اس سے آزادی لینے کا نعرہ لگائے گا یہ نہیں دیکھے گا کہ کونسی چیز فطری ہے اور کونسی غیر فطری.!
ایک چیز کو انسانی عقل سے گزارنا بہت آسان ہوتا ہے جس طرح اسکا بعد میں انکار کرنا کیونکہ عقل میں خواہشات اور انسانی سھولت کے مفادات کی دراندازی بہت ممکن ہوتی ہے جبکہ کسی چیز کو فطری اور غیر فطری میزان سے تولنا یہ بہت مشکل کام ہے جسکی طرف آنے میں موجودہ انسان کو نہ دلچسپی ہے اور نہ فرصت.!
اسکے بعد پھر اپنے آپ کو مخلوق ماننے کے بعد خالق حکیم کی فطری تعبیر سے بھی اعراض کیا جارہا ہے جبکہ یہ مدعیٰ تو خالصتاً الحادی ہے نہ جانے ایک متدین اور مذھبی انسان اس بنیادی اعتقاد کے بعد بھی بڑی آسانی سے ان الحادی اشکالات کا کیوں شکار ہو جاتا ہے..!
ذہنی گھٹن ایک احساس اور نفسیاتی کیفیت کا نام ہے۔ انسان دنیا کی کسی بھی پابندی پر، قانون پر یا اصول پر گھٹن محسوس کرسکتا ہے اگر چاہے۔ لبرلزم کی ساری طاقت اسی میں ہے کہ کسی طرح لوگ خود کو قید محسوس کرنے لگیں۔ جب قید ہونے اور گھٹن کا احساس ہوگا تو ذہن خود بخود لبرلزم کی طرف مائل ہوگا۔ روایتی معاشروں پر ان کی بنیادی تنقید ایک یہی ہے کہ وہ انسان کو قید کر رہے ہیں۔اس لیے اس عادت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی پابندی کو بتاتے وقت کہا جائے:
“اس پر پابندی ہے۔”
“اس کی اجازت نہیں۔”
پابندی کے مقاصد اور مصالح کو جتنا ممکن ہوسکے، بچپن سے ہی سمجھاتے رہنا چاہیئے۔ نئی نسل میں اس مصنوعی گھٹن کے احساس کے مقابلے کے لیے یہ ضروری ہے.!
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پابندیاں خود بہت بڑی ضرورت ہیں، نہ اس کے بغیر معاشرہ چل سکتا ہے اور نہ انسانی زندگی کا نظم برقرار رہ سکتا ہے آپ یہ سب چیزوں کو جب گھر تک رکھ کر پرکھیں گے ہر چیز واضح ہوجائیگی کہ قیود کیوں ضروری ہیں ایک سیکولر ملک خود قوانین مرتب کرتا ہے اور یہ قانونی قیود انکے ہاں مقدس ہیں کیوں؟ اس لییے کہ یہ انسان کی بنائی ہوئی ہیں پھر تو یہ نرا تعصب ہوا خدائے خالق سے.!
دنیا کے ہر لبرل معاشرے میں بھی پابندیاں ہوتی ہی ہیں مگر ان کے خلاف پراپگنڈہ کرکے گھٹن پیدا عام طور پر کی نہیں جاتی..!
جس طرح جنسی بے راہ روی کو روکنے سے خاندان کا ادارہ کا مظبوط ہونا ، عورت اور مرد کے درمیان اک محبت کا رشتہ قائم ہونا، مرد کو کفالت کی زمہ داری دینا اور عورت سے اسکا بوجھ دور کرنا کیونکہ وہ حمل اور پرورش کا کردار ادا کرتی ہے، بچوں کی تعلیم انکی تربیت، انکی معاشی سپورٹ اور نفسیاتی صحت اس سب کا تعلق اس ایک پابندی کے ساتھ ہے جو اگر ختم ہوجاۓ تو پھر معاشرہ زوال کا شکار ہوجاۓ۔
یہ اگرچہ دیکھنے میں تو ایک پابندی ہے مگر یہ انتہائی ضروری ہے۔ عورت کا حجاب کرنا ، مردوں کی نگاہوں کو نیچے کرنا ، مخلوط محفلوں سے اجتناب کرنا، یہ سب پابندیاں ہیں مگر یہ انتہائ ضروری ہیں۔
لبرلزم انکو قید دکھاتا ہے اور اسکے جو مقاصد ہیں وہ چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں چائیے کہ اسکی وضاحت کی جاۓ۔۔!
اگر ہم اس وقت دین کی صحیح تعبیر رکھ کر اسکو فطری اصولوں پر پورا پورا اتار کر لوگوں کو یہ باور کرا دیں کہ دین اب بھی عین فطری ہے عقل تو پھر بھی چھوٹی چیز ہے یہ کام دین کی بہت بڑی خدمت میں شمار ہوگا اگرچہ کام تھوڑا سا مشکل ہے لیکن ممکن ضرور ہے اور اس وقت کا تقاضا ہے.!
سب سے پہلے دین کو معاشرتی روایات اور لوگوں کی خود سے داخل کردہ موشگافیوں سے آزاد کروایا جائے تاکہ دین کی صحیح تعبیر سامنے آئے اور اسکے بعد اسی دینی تعبیر کو علت و تعقل کے شاخسانے سے گزارا جائے پھر دیکھنا کہ دین عین فطری ہے نہ ہی دین کو ہر اس چیز میں تکلفاً شامل کیا جائے جو دین کا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی دین کو اس طرح مونڈ دیا جائے کہ دین صرف موت و نجات اور بعد الموت کے واقعات کے ہی تعبیر بن کر رہ جائے۔۔!
دین کے جو احکامات ہیں وہ کسی موضوع میں اجمالی ہیں یا تفصیلی انکو اسی طرح لیا جائے اور خدا تعالیٰ کے اس احسان کی قدردانی کی جائے کہ وہ ہمیں ان انسانی معاملات میں بھی تنہا نہیں چھوڑ رہا جو خود انسان کو عقل استعمال کرکے دریافت کرنا چاہئیے تھا..!
عمیر رمضان