“حکمران کی برائی کا انکار اور اس کا شرعی طریقہ”
شیخ عبد العزیز طریفی حفظه الله عقیدہ رازیین کی شرح میں لکھتے ہیں:
برائی کا انکار اس کے درجے اور اس کے پھیلاؤ کے مطابق ہوگا۔
اگر برائی خاص طور پر حکمران سے متعلق ہو تو اسے صرف اس کی ذاتی سطح پر تنبیہ کیا جائے، اسے عوام کے سامنے ظاہر کرنا یا اس کا پردہ فاش کرنا جائز نہیں۔
لیکن اگر حکمران خود اس برائی کو عام کر دے اور لوگوں میں اس کی تشہیر کرے، تو پھر ان لوگوں کے سامنے اس برائی کا انکار کرنا ضروری ہے جن کے درمیان اسے پھیلایا گیا ہو، کیونکہ لوگ اپنے بڑوں اور سربراہوں کی پیروی کرتے ہیں، اور صرف خفیہ طور پر انکار کرنا کافی نہیں ہوتا۔
البتہ اس برائی کی قباحت بیان کرنا، اللہ کے حکم کو واضح کرنا، اور اس کے عوام پر اثرات بیان کرنا ہی انکار کے لیے کافی ہے۔
برائی کے انکار اور اللہ کے حکم کو بیان کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ برائی کرنے والوں کے نام لیے جائیں،
کیونکہ منکر تو ایک معلوم اور محدود چیز ہے، لیکن اس کے کرنے والے بہت ہو سکتے ہیں۔
برائی کو عام انداز میں بیان کرنا ہر اُس شخص پر لاگو ہو جاتا ہے، جو اسے کرتا ہے۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکمران یا کسی مخصوص فرد کا نام لے کر تنقید کرنے سے وہ ضد پر آ جاتا ہے، اور کمزور ایمان رکھنے والے علماء کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اپنی برائی کو شرعی حیثیت دلوا سکے، یوں برائی عوام میں اور زیادہ پھیل جاتی ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ لوگ اسے شرعی حیثیت دینے والا سمجھتے ہوں، اور گمان کرتے ہو کہ یہ غلطی سے پاک ہے، تو اُس وقت اس کا نام لینا ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ اللہ کے حق کی حفاظت دوسروں کے حق سے زیادہ اہم ہے۔
امام ابو حاتم و ابو زرعة رحمہما اللہ نے حکمرانوں پر خروج کو حرام قرار دینے کا ذکر اس عبارت کے بعد کیا: “مع أئمة “المسلمين
اس لیے کہ وہ حکمران جن کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے وہ صرف مسلمان حکمران ہیں، اُن کے علاوہ نہیں۔
اسی لیے امام ابو حاتم و ابو زرعة نے فرمایا:
“اور تم سنو اور اطاعت کرو اُس کی جسے اللہ نے ہمارے معاملات پر حکمران بنایا ہو۔”




