ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے!
ایک “آزاد” قوم کی حیثیت سے ہم جس طرح ہر چیز سے ہی آزاد ہوتے ہوتے جا رہے ہیں، ان میں سب سے خطرناک چیز دین کے علوم میں بے باکی اور آزادی سے زبان کھولنا ہے جو کہ ہر طرف اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب اس کو قواعد و ضوابط کا پابند بتانے والے کو تعجب کی نظروں سے دیکھا جانے لگا ہے۔
دین کے علوم میں سب سے شریف اور مسؤولیت کے اعتبار سے سب سے بھاری علم کی قرآن کی تفسیر کا علم ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی استاد کے لیے یہ سب سے آخری علم ہوتا جس میں وہ بات کرے کہ اس کی ذمہ داری بہت بھاری ہے۔ کسی آیت کی تفسیر میں ایک جملہ بولنے کا مطلب ہے کہ بندہ کہہ رہا ہے کہ اس آیت میں اللہ کی مراد یہ اور یہ ہے۔ اور اگر بندہ بغیر علم کے یہ جملہ بول رہا ہے تو یہ بات اس قدر بھاری ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن میں اس کی سخت الفاظ میں تردید کی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
سورۃ الاعراف
آیت نمبر: 33
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
ترجمہ:
آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراؤ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔
سورة الأنعام: ١٤٤
ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
تو اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر بلا دلیل جھوٹی تہمت لگائے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے یقیناً اللہ تعالیٰ ظالم کو راست نہیں دکھلاتا۔
سورۃ الحج
آیت نمبر: 8
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ
ترجمہ:
بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن دلیل کے جھگڑتے ہیں۔
سورۃ الإسراء
آیت نمبر: 36
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
ترجمہ:
جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔
اللہ کے دین میں قول بلا علم ایک بہت عظیم جرم ہے جس سے بچنا ہر ہر انسان، چاہے وہ عامی ہو یا عالم، کے لیے لازمی ہے۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روزانہ کوئی نا کوئی اٹھتا ہے اور اللہ پر کچھ بھی قول بول دیتا ہے۔ یہ ایک نہایت غیر سنجیدہ اور بے باکی والا عمل ہے جس سے ہر انسان کو ڈر جانا چاہیے۔
چنانچہ تفسیر اور اس سے متعلق علوم پر شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا جو لاجواب رسالہ “مقدمة في اصول التفسير” ہے، اس کا ایک اقتباس اور آج کے دور کے تفسیر کے متخصصین میں شمار ہونے والے شیخ مساعد الطیار حفظہ اللہ کی اس اقتباس پر شرح پیش کی جاتی ہے جو اس امر پر خوب روشنی ڈالتی ہے:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“والعلم إما نقل مصدق عن معصوم، وإما قول عليه دليل معلوم، وما سوى هذا فإما مزيف مردود، وإما موقوف لا يعلم أنه بهرج ولا منقود.”
علم وہ چیز ہے جو یا تو نبی کی طرف سے سچی روایت کے ساتھ منقول ہو، یا دلیلِ معلوم اس کی پشت پناہی کررہی ہو۔ ان دونوں قسموں کے علاوہ جو کچھ ہے، کھوٹا سکہ ہے اور پھینک دیے جانے کے لائق، اور یاپھر ایسی چیز ہوگی جس کے کھرے کھوٹے ہونے کافیصلہ نہیں کیاجاسکتا۔
[مقدمة في أصول التفسير لابن تيمية ١/٧ — ابن تيمية (ت ٧٢٨) مقدمة]
شیخ مساعد الطیار حفظہ اللہ تعالی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
“یہ ایک علمی قاعدہ ہے جو شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ پس علم یا تو وہ چیز ہے جو نبی معصوم ﷺ کی طرف سے آیا ہے(اور اس میں اجماع امت بھی شامل ہوجاتا ہے کہ مسلمان سب کے سب خطأ پر جمع نہیں ہو سکتے) اور اس کی مثال اللہ تعالی کے لیے صفت علو کا اثبات ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور آپ ﷺ ہی معصوم ہیں۔
یا پھر ایسا قول ہو جس پر دلیل معلوم ہو۔ اور اس کی مثال یہ ہے قرآن میں سورہ البقرہ کی آیت 228 میں “قرء” کے لفظ سے طہر یا حیض مراد ہے۔
ان دو قسم کی باتوں کے علاوہ جو چیز بھی علم سے منسوب ہو وہ یا تو باطل ہے اور غیر مقبول ہے۔ یا ایسی بات ہے کہ اس سے سکوت برتا جائے(جیسے اسرائیلیات جو ہماری شرع سے مخالف نا ہوں جن کی ہم تکذیب یا تصدیق نہیں کر سکتے)۔”
[شرح مقدمة في أصول التفسير لابن تيمية: 14]
اب اس کلام کو اگر تفسیر قرآن پر محمول کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تفسیر کے نام پر ہمارے اطراف میں ہونے والا کھلواڑ یا تو سیدھا سیدھا باطل کلام ہے جس پر کوئی دلیل سرے سے ہے ہی نہیں۔ یا پھر کم از کم مسکوت عنہ کلام ہے۔ بہر کیف مقبول کلام نہیں ہے کہ اسے اس آیت کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کی مراد مان لیا جائے۔
اللہ تعالی ہمیں سمجھنے کی توفیق دے اور طلاب العلم المخلصین میں شامل فرما لے۔
حافظ نصر اللہ جاويد