ہم کو ان سے وفا کی ہے امید

شرق و غرب کی بے پایاں وسعتوں تک بے کراں اخوّت اور مودّت کے ایمان یافتہ جذبات کی لڑی ان ہی مقدّس مقامات کے باعث پھیلی ہیں۔ معلوم نہیں کن کن گلی کوچوں میں بھٹکنے والے، کیسے کیسے قبیلوں اور ذاتوں کے پھنّے خانوں، چودھریوں اور راٹھوں کی پلکیں وہاں پہنچتے ہی بھیگ جاتی ہیں۔ خبر نہیں کیسے کیسے رعونت شعار لوگوں کے دل جب کُملا جائیں، جب اُن کے ایمان و ایقان کی حرارت پر اوس پڑنے لگ جائے تو پھر وہ لڑکھڑاتے قدموں، کپکپاتے جسموں اور بے تاب آنسوؤں کی جھڑی لے کر دیارِ نبیؐ جا پہنچتے ہیں۔ اَن گنت لوگوں کی آنکھیں حرمین کو دیکھنے کے سپنے دیکھتی رہتی ہیں؟ غفلتوں کے مارے لوگ جب گناہ کرتے کرتے تھک جائیں، جب اُن کے دل عصیاں سے لبالب بھر جائیں تو پھر اُن کی آنکھیں مکّہ ومدینہ کی زیارت کے لیے مچلنے لگتی ہیں۔خبر نہیں وہاں کیسی رحمتوں کی پھواریں برستی ہیں کہ ہر پریشان خاطر شخص مطمئن ومسرور ہو کر لَوٹتا ہے۔ میں خود ابھی تک حرمین کی زیارت سے محروم ہوں اور یہ احساسِ محرومی بعض اوقات زندگی کا ایک روگ سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ کتنی ہی بار جب خیالات کے دھارے اس سمت بہنے لگتے ہیں تو آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے کہ جب بیت اللہ پر میری پہلی نظر پڑے گی تو میرا کیا عالَم ہوگا؟ میرے جذبات واحساسات میں کیسے کیسے تلاطم پیدا ہوں گے؟ اُن ایمان آفریں لمحات میں بیت اللہ کو دیکھنے کے لیے جب پہلی بار اشکوں کے بوجھ سے لدی اپنی پلکیں دھیرے دھیرے اٹھاؤں گا تو میری کس قدر ہچکیاں بندھ جائیں گی! میں اپنے اللہ سے کیا کچھ مانگتا چلا جاؤں گا! رحمتوں اور برکتوں کی برکھا میں نہائے میرے وجود کے انگ انگ میں کیسے کیسے ایمانی رنگ کِھل اٹھیں گے! میں کتنی ہی بار یہ سوچتا ہوں کہ جب میری زندگی میں وہ گراں مایہ لمحات آئیں گے تو میں اپنے ربّ کے حضور دعائیں مانگنا کہاں سے شروع کروں گا اور ان کا اختتام کہاں پر ہو گا؟ بیت اللہ اور روضہ ء رسولؐ کے متعلق سوچ سوچ کر ہی دل کے اندرون اور اکناف واطراف میں ہر طرف بھینی بھینی خوشبوئیں ہلچل مچا دیتی ہیں۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی گوشے اور خطّے کا مکین ہو، اس کے خیالات میں مکّہ ومدینہ ہی بسے ہوتے ہیں۔ یوں یہ دو حرم مسلمانوں کے خیالات میں ہم آہنگی کا منبع ہیں، یہ آرزوؤں اور تمناؤں میں ایک جیسے غنچے کِھلاتے ہیں۔ تقدیس وتحریم کے یہ انداز کسی اور جگہ کو نصیب نہیں کہ دنیا کے ڈیڑھ سے زائد مسلمان ہزاروں کلومیٹر دُور ہونے کے باوجود بیت اللہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا تک پسند نہیں کرتے اور دنیا کے تمام مسلمان جہاں بھی ہوں اذان کی آواز سماعتوں سے ٹکراتے ہی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور یہ انداز کس قدر عقیدت سے شاداب ہے کہ جب کوئی بھی مسلمان مرتا ہے تو قبر میں دفن کرنے کے بعد اس میّت کا منہ کعبے کی طرف کر دیا جاتا ہے، اس لیے کہ روشنی کے سَوتے وہیں سے پھوٹتے ہیں اور ہدایت کی مآخذ جگہوں سے ہم بے وفائی کر ہی نہیں سکتے۔مکّہ ومدینہ کا تقدّس نبیِ مکرّمؐ نے یوں بیان فرمایا ہے۔
” حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فتحِ مکّہ کے دن فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی پیدایش کے دن سے ہی اس شہر کو محترم ٹھہرایا ہے اور یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک محترم رہے گا، مجھ سے پہلے کسی کے لیے اس شہر میں قتل وقتال حلال نہیں ہُوا اور میرے لیے بھی دن کی گھڑی بھر کے لیے حلال ہُوا تھا، پس وہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمت کے تحت قیامت تک کے کے لیے قابلِ احترام ہے، اس لیے اس میں اُگے ہوئے درخت کو کاٹا نہ اکھیڑا جائے، نہ اس میں شکار بھگایا جائے، نہ اس میں گری پڑی چیز اٹھائی جائے، البتہ وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو اسے اس کے مالک تک پہنچائے، اس شہر کی گھاس نہ کاٹی جائے، حضرت عباسؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (کی اجازت دے دیجیے) کہ یہ لوگوں کے چولھوں میں جلانے اور گھروں میں (چھتوں پر ڈالنے کے لیے) استعمال ہوتی ہے، تب آپؐ نے ارشاد فرمایا اس کی اجازت ہے“ (مسلم)
مسلمانوں کے لیے دوسرا حرم مدینہ ہے۔ اس کی حرمت کے لیے بخاری شریف میں حدیث ہے کہ” نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ مدینے کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، مدینے میں نہ کبھی طاعون پھیلے گا نہ دجال داخل ہو گا“ نبیؐ نے ارشاد فرمایا کہ” جو شخص مدینے میں مرے گا، میں اُس کے لیے سفارش کروں گا“ (ترمذی)
” حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا کہ یااللہ! مکّہ کو تُو نے جیسی برکت عطا فرمائی ہے، مدینے کو اس سے دوگنی برکت عطا فرما“ (بخاری)
مکہ ہو یا مدینہ، ان سے ہماری نسبتیں عقیدتوں کے سانچے میں ڈھلی ہیں۔ واللہ! ہمیں مکّہ اور مدینہ تشبیہات اور استعارے کے طور پر بڑے ہی جاں فزا اور ایمان افروز لگتے ہیں۔ 78 سالوں سے ہمیں یہی نوید سنائی جاتی رہی ہے کہ یہ ملک مدینے کی طرز پر قائم کیا گیا ہے اور اس ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنا دیا جائے گا۔ہمارے دل آج تک اسی بات اور نوید پر نہال اور شاداں وفرحاں ہوتے رہے ہیں کہ اب ملک میں مکمّل نہ سہی مدینے کی کچھ نہ کچھ تمکنت ضرور پیدا ہو جائے گی مگر 78 سال ہونے کو آئے، ریاست مدینہ جیسا کوئی ایک جھونکا اور کوئی خفیف سی لَپٹ ابھی تک مشامِ جاں کو معطّر نہ کر سکی۔ وہ سب ارادے اور وعدے نہ جانے کن بھول بھلیوں میں گم ہو چکے۔ مہنگائی سے لے کر کرپشن تک، تمام منحوس رُتیں مسلسل سانڈھ بنتی جا رہی ہیں۔ مفت بجلی دینے کے وعدے کب کے کسی گرداب میں غرق ہو چکے۔ غریب ہی نہیں متوسط طبقہ بھی بجلی کے بلوں سے تنگ آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ ہماری آنکھیں ترس گئی ہیں، وہ ایک جگنو اور کوئی ایک ایسی کرن دیکھنے کو جس میں ریاست مدینہ کی جھلک ہی موجود ہو۔ معلوم نہیں وہ کرن کب پھوٹے گی؟ خبر نہیں وہ جگنو کب جگمگائیں گے؟ حکمرانوں کی کچھ ادائیوں اور فاش بے وفائیوں پر ہمیں مرزا غالب بہت یاد آتے ہیں۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

(حیات عبداللہ.. انگارے)

یہ بھی پڑھیں: قبولیتِ دعا کے سنہرے لمحات