سوال

اگر کسی کی دل آزاری کی ہو یا اس کا حق مارا ہو  اسی سے معافی مانگنا پڑے گی یا اللہ سے توبہ کر لیں تو کافی ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جب ہم کسی کو تکلیف دیتے ہیں یا اس کا دل دکھاتے ہیں تو ہمارے اوپر دو قسم کے جرم لاگو ہوتے ہیں:

1: اللہ تعالی کی نافرمانی  کرنے کا

2:اور  اللہ تعالی کے بندے کو تکلیف پہنچانے کا

اللہ تعالی کی نافرمانی اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالی نے  مسلمان بھائی کو ناجائز تکلیف دینے سے منع فرمایا ہے۔

جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے  نبی صلی اللہ علیہ سلم سے پوچھا کہ سب سے  بہترین اور افضل اسلام کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:

“مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ”. [صحیح بخاری:11]

’وہ جس کے ماننے والے مسلمانوں کی زبان اور ہاتھ سے سارے مسلمان سلامتی میں رہیں‘۔

لہذا جس سے مسلمان تکلیف میں ہوں وہ کامل مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔

اس لیے اگر کسی کو تکلیف دی ہے تو اللہ کا حق یہ ہے کہ سچے دل سے اللہ پاک سے ایسے کاموں سے توبہ  کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

“وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا”. [طہ:82]

’ہاں بیشک میں انہیں بخشنے والاہوں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک عمل کریں‘۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشادِ ربانی ہے:

“وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِهَا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ”. [الاعراف:153]

’اور وہ لوگ جنہوں نے گناه کے کام کئے پھر انہوں نے  توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ اس توبہ کے بعد گناه معاف کر دینے والا رحمت کرنے والاہے‘۔

توبہ اور استغفارکرنے سے اللہ تو معاف فرما دیں گے،  لیکن حقوق العباد اس کی گردن پر رہے گا، جس کا اتارنا بہت ضروری ہے اگر اس بوجھ کو نہیں اتارے گا تو قیامت والے دن اس سے اس کے  عوض نیکیاں لی جائیں گیں  جیسا کہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:

“مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ”. [صحیح البخاری:2449]

’جس انسان نے کسی دوسرے کی عزت یا کسی  چیز پرظلم کیاوہ اپنی زندگی میں ہی اس سے معذرت کر لے ورنہ قیامت والے دن اس کے پاس نہ  درہم ہو گا اور نہ دینار پھر اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے‘۔

ایک اور حدیث میں اور وعید بھی بتائی گئی ہے:

“فإن فَنِيَتْ حَسناتُه قبلَ أن يُقضَى ما عليهِ، أُخِذَ من خطاياهم، فطُرِحَتْ عليهِ، ثمَّ طُرِحَ في النَّارِ”. [مسلم:2581]

’  اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں، قبل اس کے کہ اس کے ذمے دوسروں کے حقوق باقی ہوں، تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا ‘۔

اس لیے اس بندے سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے اور اگر اس کا کوئی حق سلب کیا ہے تو اس کو واپس کر کے اس کو راضی کرنا چاہیے، اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اللہ پاک معاف فرما دے گا۔

مختصر یہ کہ حقوق العباد میں کوتاہی کے لیے اللہ سے معافی مانگ کر اللہ کو بھی راضی کرنا ضروری ہے اور متعلقہ بندے سے بھی معذرت کرنا اور اسے راضی کرنا ضروری ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ