سوال (5023)

کیا حرمت والے مہینوں میں جہاد بھی نہیں کر سکتے ہیں؟

جواب

پہلے احکامات اس طرح تھے کہ حرمت والے مہینوں میں جہاد بھی نہیں ہوتا تھا، جب رجب کا چاند نظر آ گیا تھا، سریہ روانہ کیا جا چکا تھا تو کفار مکہ نے شور کیا تھا۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“يَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الشَّهۡرِ الۡحَـرَامِ قِتَالٍ فِيۡهِ‌ؕ قُلۡ قِتَالٌ فِيۡهِ كَبِيۡرٌ ‌ؕ وَصَدٌّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَ کُفۡرٌ ۢ بِهٖ وَالۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَاِخۡرَاجُ اَهۡلِهٖ مِنۡهُ اَكۡبَرُ عِنۡدَ اللّٰهِ ‌‌ۚ وَالۡفِتۡنَةُ اَکۡبَرُ مِنَ الۡقَتۡلِ‌ؕ وَلَا يَزَالُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ حَتّٰى يَرُدُّوۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِکُمۡ اِنِ اسۡتَطَاعُوۡا ‌ؕ وَمَنۡ يَّرۡتَدِدۡ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَيَمُتۡ وَهُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ فِى الدُّنۡيَا وَالۡاٰخِرَةِ ‌‌ۚ وَاُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ” [البقرة: 217]

وہ تجھ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔ اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے، یہاں تک کہ تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں، اگر کر سکیں، اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے، پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے اور یہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں.
اس کے بعد متعدد غزوات اور سرایا ملتے ہیں، جو حرمت والے مہینوں میں لڑےگئے ہیں، گویا پہلا حکم منسوخ ہوگیا ہے، اب اہل اسلام اور اہل کفر کے درمیان کوئی بھی واقع ہوتا ہے تو یہ جائز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ