برِصغیر پاک و ہند کے علمائے اہلِ حدیث نے سید احمد شہید، سید اسماعیل شہید اور ان کے عالی قدر رفقاء کی بالاکوٹ میں شہادت کے بعد جس طرح دعوتی و اصلاحی اور علمی و عملی میدان سنبھالا نیز میدانِ جہاد میں جس ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ایسی جماعت کا ایک جگہ جمع ہوکر یوں دین کے لیے برسرِ پیکار رہنا تاریخ کے صفحات میں کہیں بھی نظر نہیں آتا. مرزا مظہر جان جاناں نے ایسے ہی لوگوں کے متعلق کہا تھا :

بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را
ترجمہ : خون اور خاک میں تڑپنے والی اچھی رسم کی بنیاد انہوں نے ڈالی. خدا ان پاک طینت، نیک فطرت عاشقوں پر اپنی رحمت نازل کرے.
محدث حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے جب شوال 1258ھ میں ہندوستان سے ہجرت فرمائی تو ان کے بعد ان کی مسند پر شیخ الکل فی الکل حضرت سید میاں نذیر حسین صاحب دہلوی علیہ الرحمۃ رونق افروز ہوئے. گویا بقول منور خان مغفل :

آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد

نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد

” آپ ساٹھ سال تک دہلی میں صرف درس حدیث دیتے رہے اور اسی عمل خیر میں زندگی بسر کردی اور قریباً آٹھ لاکھ لوگوں کو عامل بالحديث بنایا “.
( دبستان حدیث : 80. از محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ).
میاں صاحب رحمہ اللہ کے قابل ترین تلامذہ میں سے حضرت مولانا عبد العزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کا اسم گرامی نہایت نمایاں حروف میں مرقوم دکھائی دیتا ہے. مولانا کا تعلق رحیم آباد سے تھا اور آپ اپنے عہد کے آسودہ خال خاندان کے آسودہ حال فرد تھے.
نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک مولانا رحیم آبادی نے بائیس سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم کی کتابیں پڑھ لی تھیں. فنِ مناظرہ میں آپ اس قدر طاق تھے کہ آپ کو ” امام المتکلمین ” کہا گیا. تنظیمی امور میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جماعت اہل حدیث کی بنیادیں رکھنے میں آپ کی کاوشوں کو دخل ہے. قانونی داؤ پیچ سے آگاہی یوں جانیے کہ کئی اہم مقدمات میں اہل حدیث حضرات کی نہ صرف پیروی کی بلکہ کامیاب و کامران لوٹے.
ان گوناگوں مصروفیات کے باوجود آپ نے قلمی معرکے بھی سرانجام دیے. آپ کی ایک اہم ترین تصنیف ” حسن البيان فيما في سيرة النعمان ” ہے جس میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی تصنیف ” سیرۃ النعمان ” پر علمی گرفت کی گئی ہے. اس تنقید کا جو نتیجہ نکلا اس کے متعلق مولانا عبد السلام مبارک پوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ” ہم عصر شمس العلماء نعمانی صاحب کی رنگ آمیزیوں کے دل چسپ مناظر دیکھنے ہوں تو حسن البیان ہاتھ میں لیجیے. حسن البیان، سیرۃ النعمان ہی کے کشفِ حقیقت اور اسی کا سین دکھانے کے لیے لکھی گئی ہے… مشہور مناظر علامہ رحیم آبادی کی تالیف ہے. خوشی کی بات ہے کہ ہم عصر نعمانی صاحب نے تیسری بار طبع کرنے میں سیرۃ النعمان کی موٹی موٹی غلطیاں…درست کرلیں، اور حسن البیان کی تالیف کا اچھا ثمرہ مرتب ہوا.
( سیرۃ البخاري، ص : 226).
حسن البیان کا پہلا ایڈیشن 1311ھ / 1893ء کو مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوا. ( دبستانِ نذیریہ، 1/ 662).
اس کے علاوہ ایک بار یہ کتاب علامہ عطاء اللہ  حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی فکرمندی سے 1385ھ میں اہل حدیث اکادمی لاہور کی طرف سے شائع کی گئی.
اب یہ اہم ترین کتاب محسن ملت ڈاکٹر بہاء الدین محمد سلیمان صاحب حفظہ اللہ کی خصوصی توجہ سے اشاعت کے مراحل طے کرکے قارئین کے ہاتھوں میں ہے.
ڈاکٹر صاحب عالَمِ بزرگی میں دیارِ غیر میں بیٹھے تنہا پرورشِ لوح و قلم کر رہے اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں جن کو شاید بڑے بڑے ادارے بھی سرانجام نہ دے سکیں.
ختمِ نبوت اور تاریخ اہلِ حدیث پر جو کچھ آپ نے عالمِ پیری میں تنہا لکھ دیا ہے جماعت اہل حدیث ہمیشہ ان کی مقروض رہے گی.
حسن البیان فيما في سیرۃ النعمان کے اس طبع کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مناظرہ مرشدآباد 1883ء اور فیصلہ پریوی کونسل لندن 1891ء بھی شائع کردیا گیا جسے پڑھ کر مولانا رحیم آبادی کی عزت دل میں مزید بڑھ جاتی ہے.
برادرم سہیل گورداسپوری صاحب مرنجاں مرنج اور ایک وضع دار شخصیت کے حامل ہیں.

‏بہت جی خوش ہوا اے ہم نشیں کل جوش سے مل کر
ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں

آپ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود خود اہلِ علم کی خدمت میں با ادب حاضری دے کر یہ کتاب بلا معاوضہ پیش کر رہے ہیں. میری اہلِ علم سے گزارش ہے کہ بالاستیعاب اس کا مطالعہ فرمائیں اور کتاب پر تبصرے کی شکل میں اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں. اور اپنی جماعت کے سربراہان اور سرمایہ دار حضرات سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے علمی منصوبوں کی تکمیل کے لیے ان کے دست و بازو بنیں اور کتب کی نشر و اشاعت سے لے کر ان کی تقسیم کے مراحل کا کچھ ایسا سلسلہ بنائیں کہ تمام کتب حق دار بحق رسید کے مطابق ہر صاحب علم تک بغیر کسی دقت کے پہنچ جائیں۔

حافظ عبد العزيز آزاد