سوال (1527)
میں ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں جاب کرتا ہوں، ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ باہر کے کلائنٹ اور ان سے کام لینے کے لیے ہم بیرون ملک کی کوئی لوکیشن دکھاتے ہیں، کیونکہ وہ پاکستانیوں کو کام نہیں دیتے، کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ بعض لوگ پراکسی لگا کر خود کو کسی اور ملک میں شو کرتے ہیں، حالانکہ وہ ہوتے پاکستان میں ہیں، کیا یہ جائز ہے؟
اسی طرح بعض دفعہ کلائنٹ سے آن لائن میٹنگ مطلوب ہوتی ہے، تو اس میں کسی اور شخص کو پیش کیا جاتا ہے، جبکہ کام کرنے والا کوئی اور بندہ ہوتا ہے۔
جواب
آن لائن کام کرنا کروانا، فری لانسنگ سروسز لینا دینا جائز ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس میں شریعت کے وہ تمام آداب و اصول ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہیں، جن کی فزیکل/ آن سائٹ/ آف لائن پابندی کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اگر کوئی شخص بحیثیت پاکستانی آپ سے کام ہی نہیں کروانا چاہتا، تو آپ اسے دھوکہ دے کر خود کو کسی اور کنٹری کا شو کر کے کام لیں گے، تو یہ واضح طور پر دھوکہ ہے۔
اسی طرح آپ بیٹھے پاکستان میں ہوئے ہیں، لیکن پراکسی وغیرہ لگا کر ظاہر کروائیں کہ آپ کسی اور ملک میں ہیں، تو یہ بھی دھوکہ ہے۔
اسی طرح کام حاصل کرنے کے لیے کسی ایکسپرٹ کو انٹرویو میں پیش کرنا، جبکہ کام کسی اور سے کروا کر دینا یہ بھی جھوٹ، دھوکہ دہی اور کذب بیانی ہے۔
یہ سب صورتیں کسی طرح جائز نہیں ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
اگر خرید و فروخت میں سچ بولا جائے، تو اس میں برکت ہوتی ہے، اور اگر اس میں دھوکہ دہی اور جھوٹ سے کام لیا جائے، تو ا س سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ [ صحيح بخارى:2079]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر” [صحيح مسلم:1153]
اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:«لا ضَرَرَ ولا ضِرَارَ» [صحيح سنن ابن ماجة:1909]
کسی کو، یا آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا درست نہیں ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سچا امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہو گا”۔ [سنن الترمذی:1209،صحيح الترغيب والترهيب:1782]
اس میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہم کام کے بدلے میں پیسے لے رہے ہیں یا ہم انہیں کوالٹی دے رہے ہیں… وغیرہ،
یہ بات درست نہیں، کیونکہ جن کے ساتھ آپ معاہدہ کر رہے ہیں انہیں کام اور کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے خاص قسم کی لوکیشن اور شخصیت مطلوب ہے۔ اسی لیے تو وہ تو محض کوالٹی کی بات کرنے کی بجائے باقاعدہ کسی خاص نیشنلٹی یا کسی خاص انجینئر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اور فرض کریں اگر آپ کی بات مان بھی لی جائے کہ انہیں صرف کام اور اس میں مطلوبہ معیار چاہیے، تو آپ انہیں جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر کیوں کہتے ہیں کہ ہم فلاں ملک سے ہیں یا آپ کو فلاں آدمی کام کر کے دے گا؟
آپ کو چاہیے کہ آپ غلط بیانی اور دھوکہ دہی کرنے کی بجائے انہیں اس بات پر قائل کریں کہ میں پاکستان سے ہوں اور یہ میری اہلیت ہے اور اس معیار کا کام میں آپ کو کرکے دوں گا، اگر نہ کروں تو آپ مجھے پیمنٹ نہ کریں، یا جو بھی معاہدہ آپ کرنا چاہتے ہیں کریں۔
اسی طرح اگر آپ انہیں سب حقیقتِ حال سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ ہمارے آفسز فلاں فلاں لوکیشنز پر بھی ہیں، جبکہ کام ہم آپ کو فلاں جگہ سے کر کے دیں گے، تو اس میں کوئی حرج نہیں، تاکہ اگر وہ مطمئن ہوتے ہیں تو کام کروائیں، مطمئن نہ ہوں تو نہ کروائیں، کم ازکم آپ کی طرف سے غلط بیانی اور دھوکہ دہی والی کوئی صورت نہیں ہو گی۔
یہان سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ لوگ پاکستان یا کسی اور خاص ملک کو کام کیوں نہیں دینا چاہتے؟ آخر انہیں پاکستانیوں سے کیا مسئلہ ہے؟
حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمان معاملات میں اس قدر صاف شفاف، کھرے اور وعدے کے پابند ہوں کہ دنیا پاکستانی کمپنیز اور ان کے انجینئرز/ ایکسپرٹس کو ترجیح دیں۔
لیکن ہم نے شرعی احکام کی مخالفت کرکے خود اپنا معیار اور اعتماد خراب کیا ہے۔
اس قسم کی دھوکے بازی کرنے والے کم از کم تین طرح کے نقصان کر رہے ہوتے ہیں:
1۔ شرعی احکامات کی مخالفت
2۔ پروفیشنل اور پیشہ ورانہ اصول وضوابط کی خلاف ورزی
3۔ اپنے ملک، علاقے اور اس کے لوگوں کی بدنامی کا ذریعہ بنتے ہیں، چنانچہ ان برے لوگوں کی وجہ سے بہت سارے اچھے لوگ بھی کاروباری امکانات اور مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
علمائے کرام، آئی ٹی انڈسٹری کے پروفیشنلز اور ملک پاکستان کے متعلقہ اداروں کو اس قسم کی حرکتوں کی روک تھام کے لیے توجہ کرنی چاہیے۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ