عبادت ونیکی میں منافسہ

نوجوانوں اگر عبادت میں فتور اور سستی محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ بزرگوں کو دیکھ کر ہمت پکڑے، ان کے ایمان و عمل سے اپنے لیے شوق و جذبے کی راہ تلاش کرے۔

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا ’’صلاة کسوف‘‘ (سورج گرہن کی نماز) کے متعلق حدیث بیان کرتے ہوئے ذکر کرتی ہیں :

«دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا فَقُمْتُ مَعَهُ فَأَطَالَ الْقِيَامَ حَتَّى رَأَيْتُنِي أُرِيدُ أَنْ أَجْلِسَ ثُمَّ أَلْتَفِتُ إِلَى الْمَرْأَةِ الضَّعِيفَةِ فَأَقُولُ هَذِهِ أَضْعَفُ مِنِّي فَأَقُومُ».

’’میں مسجد میں گئی تو رسول اللہ ﷺ کو قیام کرواتے ہوئے دیکھا، میں بھی ساتھ شامل ہو گئی، آپ نے اتنا لمبا قیام کیا، میری حالت یہ ہو گئی کہ دل کرتا کہ میں بیٹھ جاؤں پھر میں ایک بوڑھی عورت کی طرف دیکھ کر سوچ لیتی کہ یہ مجھ سے زیادہ کمزور ہے، (پھر بھی کھڑے ہو کر قیام کر رہی ہے۔) تو میں بھی کھڑی رہتی۔‘‘ (صحیح مسلم : ٩٠٦)

⇚شمیط بن عجلان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«إِنَّ اللهَ عَزّ وَجلّ جَعَلَ قُوَّةَ الْمُؤْمِنِ فِي قَلْبِهِ، وَلَمْ يَجْعَلْهَا فِي أَعْضَائِهِ، أَلَا تَرَوْنَ أَنَّ الشَّيْخَ يَكُونُ ضَعِيفًا يَصُومُ الْهَوَاجِرَ وَيَقُومُ اللَّيْلَ، وَالشَّابُّ يَعْجِزُ عَنْ ذَلِكَ؟».

’’اللہ تعالی نے مومن کی طاقت اس کے اعضاء میں نہیں بلکہ دل میں رکھی ہے، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ایک بوڑھا گرمی کے روزے رکھ لیتا ہے اور رات کو قیام کر لیتا ہے جبکہ نوجوان اس سے بے بس و عاجز نظر آتا ہے۔‘‘ (شعب الإيمان للبيهقي : ٤/ ٥١٤ وسنده صحیح)

یعنی اصل طاقت دل کی طاقت ہوتی ہے اعضاء کی نہیں، اس لیے بوڑھا شخص اعضاء کی کمزوری کے باوجود نیک اعمال کر لیتا ہے، جنہیں نوجوان بھرپور طاقت ہونے کے باوجود کرنا بہت مشکل سمجھتا ہے۔
نیز یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ انسان منافست و مقابلہ بازی کا میدان آخرت کو بنائے نہ کہ دنیا داری کو، نیکی کرتے لوگوں کو دیکھ کر اس میں حرص پیدا ہو، نہ کہ مال ودولت دیکھ کر للچائی نظروں سے دیکھے۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ (١١٠هـ) فرماتے ہیں :

«إِذَا رَأَيْتَ الرَّجُلَ يُنَافِسُكَ فِي الدُّنْيَا فَنَافِسْهُ فِي الْآخِرَةِ».

’’جب آپ کسی بندے کو دیکھیں کہ وہ آپ کے ساتھ دنیاوی معاملے میں مقابلہ لگا رہا ہے تو آپ اس سے آخرت کے معاملے میں مقابلہ لگا لیں۔‘‘
(ذم الدنيا لابن أبي الدنيا : ٤٦٥ وسنده صحیح)

یعنی اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ دنیاوی مال و دولت میں آپ سے جیت رہا ہے، تو آپ اس نیکی و تقوی میں اس سے مقابلہ لگا لیں کہ یہاں تو میں جیت سکتا ہوں۔ لیکن اب تو معاملہ بالکل الٹ ہے، ایک تو ہمارے مقابلہ بازی کا میدان دنیا بن گئی ہے کہ دین دار اور طلبِ آخرت کا دعوی کرنے والے بھی دنیاوی امور میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے اور دوسرا جن کے پاس مال و دولت ہے وہ اگر کسی دیندار کو دیکھتے ہیں تو نیکی وتقوی میں اپنی کوتاہی کے اعتراف کی بجائے، اپنے مال و دولت کی برتری جتانے لگتے ہیں۔
اس کی اَصل نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے:

«لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يَتَصَدَّقُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ».

’’صرف دو بندوں پر رشک ہوسکتا ہے، ایک وہ بندہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا کیا ہو اور وہ رات کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے اور دوسرا جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہو اور وہ دن رات اسے خرچ کرتا ہوتا ہو۔‘‘ (صحیح البخاري : ٥٠٢٥)

یعنی دوسروں کی نیکی دیکھ کر اس نیکی کی خواہش پیدا ہو ۔ صرف مال دیکھ کر رال نہ ٹپکے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کے علاوہ کئی واقعات ہیں کہ ان کے ہاں نیکی میں منافست ہوا کرتی تھی، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انفاق میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنا ہے۔
(سنن أبي داود : ١٦٧٨)

 …حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: گناہ کے بعد وضو