سوال
آج کل ابراہیمی معاہدہ (Abraham Accords) کا چرچہ ہے، سنا ہے اس معاہدے میں مسلمان ممالک بھی شامل ہو رہے ہیں، جس میں دین ابراہیمی کے نام پر مسلمان، عیسائی، یہودی سب کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ اور اس کو ماننے والوں کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
دین ابراہیمی سے مراد اگر وہ دین اور عقیدہ و منہج ہے، جس کی طرف جد الانبیاء ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے بلایا تو وہ برحق ہے،
قرآنِ کریم میں اسے “ملتِ إبراہيم” کہا گیا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
“ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا”. [النحل 123]
“پھر ہم نے آ پ کی طرف وحی کی کہ ملتِ ابراہیم کی پیروی کرو جو حق کی طرف یکسو تھے”۔
بعد میں لوگوں نے اس میں تبدیلی و تحریف کی تو اسی دین کے احیاء کے لیے حضرت موسی علیہ السلام پھر عیسی علیہ السلام اور آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی دین کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
“مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَـٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا”. [آلِ عمران: 67]
“ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ عیسائی، بلکہ سچے توحید پرست مسلمان تھے”۔
اسی طرح فرمایا:
“إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ”. [آلِ عمران: 19]
“بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے”۔
ان آیاتِ بینات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ہان پسندیدہ اور معتبر دین اسلام ہی ہے اور یہ وہی دین ہے جو حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور آخرکار حضرت محمد ﷺ لے کر آئے۔
لہذا آج اگر کوئی دین ابراہیم کا احیاء چاہتا ہے اور تمام لوگوں کو ایک دین پر اکٹھا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسلام اور اس کی تعلیمات کو اپنانا ضروری ہے۔ کیونکہ بقیہ ادیان نے اپنی کتابوں میں تحریف و تبدیلی کر دی جس سے ان کے دین کا اصلی چہرہ مسخ ہو گیا، جبکہ اسلام کتاب وسنت کی صورت میں ہمیشہ محفوظ رہے گا۔
اس سے یہ بھی سمجھ آیا کہ یہودیت، عیسائیت وغیرہ مختلف مذاہب کے چربے کو دین ابراہیمی کہنا درست نہیں ہے۔ اور اسلام کے علاوہ کسی بھی دین یا مختلف ادیان کے ملغوبے کو ماننے کی دعوت دینا باطل اور صریح کفر ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
“وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ”. [سورۃ آلِ عمران: 85]
“اور جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا، تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔”
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
«وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، يَهُودِيٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ».[صحیح مسلم: 153]
“اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! اگر اس امت میں سے کوئی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سنے، پھر مجھ پر ایمان لائے بغیر مر جائے، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا”۔
اسی طرح ارشادِ باری تعالی ہے:
“وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ”.[سورۃ البقرہ: 42]
“اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو”۔
سلف صالحین نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے:
«لَا تَلْبِسُوا الْيَهُودِيَّةَ وَالنَّصْرَانِيَّةَ بِالإِسْلامِ، إِنَّ دِينَ اللَّهِ الإِسْلامُ وَالْيَهُودِيَّةُ وَالنَّصْرَانِيَّةُ بِدْعَةٌ لَيْسَتْ مِنَ اللَّهِ». [تفسير ابن أبي حاتم:1/ 98]
یعنی یہودیت و نصرانیت کو اسلام کے ساتھ خلط ملط نہ کرو، اللہ کا دین صرف اسلام ہے، یہودیت و نصرانیت من گھڑت رسوم و رواج ہیں اللہ کی طرف سے نہیں ہیں۔
ان تمام آیات و نصوص سے درج ذیل باتیں واضح طور پر سمجھ آتی ہیں:
1۔ اسلام نے آکر سابقہ مذاہب اور شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے تورات، زبور، انجیل اور دیگر کتب کو منسوخ کر دیا ہے۔ جو کوئی اسلام قبول نہ کرے، خواہ وہ یہودی، عیسائی یا کوئی اور ہو، وہ کافر ہے اور اللہ کا دشمن ہے، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ جہنم کا مستحق ہے۔
2۔ ادیان کے اتحاد کی دعوت ایک سازش اور مکر و فریب پر مبنی چال ہے جس کا مقصد اسلام کو کمزور کرنا اور مسلمانوں کو مرتد کرنا ہے۔
اس دعوت کا ایک اثر یہ ہوگا کہ اسلام اور کفر کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اور مسلمانوں کے ہاں ولاء و براء کا عقیدہ ختم ہو جائے گا، جس سے جہاد اور اعلائے کلمۃ اللہ کی تمام کوششیں بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔
3۔ کسی بھی مسلمان کے لیے اس دعوت کی حمایت کرنا، اس کے سیمینارز میں شرکت کرنا یا اس کے خیالات کو پھیلانا جائز نہیں۔ اگر کوئی اس دعوت کو فروغ دے تو وہ دینِ اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے ، کیونکہ یہ دعوت اسلام کے اصولوں کے منافی ہے۔
4۔ قرآن، تورات اور انجیل کو ایک ہی جلد میں شائع کرنا یا مسجد، چرچ اور مندر کو ایک جگہ بنانا ناجائز ہے، کیونکہ یہ اسلام کی حقانیت اور برتری کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔
5۔ اگر حکومتوں کی سطح پر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے لوگوں کو جبرا اسے منوانے کی کوشش کی جائے تو پھر بھی اس کو ماننا درست نہیں، کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی بھی بات ماننا جائز نہیں ہے۔
تمام اہل علم و دانش بلکہ تمام اہل اسلام کو کوشش کرنی چاہیے کہ تمام حلقوں میں اس حوالے سے آگاہی کو عام کیا جائے، ارباب اقتدار کے لیے اس مسئلے کی سنگینی کو واضح کیا جائے، امت کو اس فتنے کے حوالے سے بیدار اور اس کے مفاسد سے خبردار کیا جائے تاکہ مسلمان اس قسم کی آزمائش سے محفوظ رہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
 
					 
			 
							 
							 
							 
							 
							 
							




 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				