سوال (503)

ایک لمبی چوڑی تحریر ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض لوگ صحیح بخاری کی اس مشہور روایت کا انکار کرتے ہیں، جس میں ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے ’کذبات ثلاثہ‘ کا ذکر ہے، اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ اور یہ کہ ایک نبی کی عظمت بخاری و مسلم سے کہیں زیادہ ہے، لہذا کسی نبی کو جھوٹا قرار دینے سے بہتر ہے کہ کسی امتی کی غلطی کا اعتراف کر لیا جائے! کیونکہ محدث یا راوی جس قدر مرضی قابل اعتماد ہو اور کتابیں جتنی بھی تحقیق سے لکھی گئی ہوں، ان میں غلطی کا امکان رہتا ہے…لیکن متاخر علماء افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں اور انہوں نے صحیحین کو تنقید سے ماوار قرار دیا ہے۔ وغیرہ

جواب

جی یہ روایت اس طرح ہے:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ إِلَّا ثَلاَثًا» [صحيح البخاري:3357، صحيح مسلم:2371]

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت ابراہیم ؑ نے زندگی میں صرف تین مرتبہ خلاف واقعہ بات کی ہے۔
امام بخاری و مسلم سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کئی ایک محدثین نے اس کو متعدد دفعہ ذکر کیا ہے۔ جس کا مطلب علماء اور شارحین نے یہ بیان کیا ہے کہ ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے تین مقامات پر توریہ و تعريض يا خلاف واقع بات کی تھی۔ اور توریہ کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے۔
ہمارے منکرین حدیث اور دیگر معترضین دوستوں کی مصیبت یہ ہے کہ لفظ ’کذب‘ کے معانی سے عدم واقفیت کی بنا پر اعتراض کی ساری عمارت کھڑی کر لیتے ہیں حالانکہ ’کذب‘ عربی کا لفظ ہے، جس کے کئی ایک معانی ہیں، اردو کا لفظ ’جھوٹ‘ اس کے مختلف معانی میں سے ایک ہے جو کہ یہاں مراد ہی نہیں۔ اگر کوئی قلمکار حدیث میں ایسا لفظ دکھا دیں جس کا ’جھوٹ‘ کے علاوہ اور کئی معنی بنتا ہی نہ ہو تو پھر ان کی بات میں وزن ہے کہ قرآن کی آیت اور حدیث میں تناقض اور تعارض ہے۔
بفرض محال اگر بظاہر تعارض و تناقض ثابت بھی ہو جائے اور اسے حل کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو، تو اس کا حل ثابت شدہ نص کا انکار یا رد نہیں ہوتا، بلکہ توقف ہوتا ہے۔ فقہی مسائل میں تطبیق، نسخ، ترجیح اور توقف اہل علم کے ہاں یہ چار ہی صورتیں ہیں، پانچویں صورت انکار و تردید اہل علم کا طریقہ کار نہیں ہے۔ بلکہ جس سہولت سے منکرین حدیثوں کو رد کرتے ہیں، اس طرح تو پہلی تین چار صورتوں کے تکلف کی ضرورت ہی نہیں رہتی!!
باقی اس قسم کے مسائل کی وجہ سے جو عجیب و غریب قسم کے اعتراضات کیے جاتے اور پھپتیاں کسی جاتی ہیں تو اس حوالے سے گزارش ہے کہ افراط و تفریط کا شکار متقدمین و متاخرین نہیں، بلکہ معاصر قلمکار ہوئے ہیں، جنہیں قرآن وسنت کی روایت اور اس کی تحقیق کے نظام کی سمجھ بوجھ نہیں آ سکی۔
ورنہ نہ تو قرآن کی آیت إنہ کان صدیقا نبیا ان سے پوشیدہ تھی اور نہ ہی بخاری میں کذبات ثلاثہ والی روایات کسی متاخر نے بخاری میں داخل کر دی ہے…!!
اگر آیت اور حدیث میں اس قدر مشکل تعارض ہوتا کہ دونوں میں سے ایک کا انکار کرنا ضروری تھا تو یقینا یہ نیک کام معاصرین کے لیے نہ چھوڑا نہ جاتا، متقدمین و متاخرین سب مل کر یہ ’سعادت’ حاصل کر چکے ہوتے!
یہ سب بچگانہ باتیں کہ جتنی مرضی مہریں لگ جائیں، پھر بھي کوئی معصوم نہیں ہوتا.. وغیرہ وغیرہ۔
اس گھٹیا منطق سے بشمول قرآن کریم کے دنیا میں کوئی چیز قابل اعتبار رہ سکتی ہے؟ کیونکہ اگر بخاری کا تواتر اور اس کا یقینیات میں سے ہونا اس لیے قابل قبول نہیں کہ یہ بہر صورت غیر معصوم راویوں سے گزر کر آئی ہے، تو پھر قرآن کو بھی تو رواۃ حدیث کے ارد گرد اسی ماحول میں رہنے والے ’راویانِ قرآن’ نے ہی ہم تک پہنچایا ہے، ایسا تو نہیں ہے کہ حدیث کے راوی خاکی بشر ہیں، جبکہ قرآن کے قاری نوری ملائکہ تھے!
جب علمائے امت نے یہ وضاحت کی ہوئی کہ ’کذب‘ کا معنی صرف ’جھوٹ‘ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے دیگر اطلاقات بھی ہیں، تو پھر ان معاصر قلمکاروں کو کس حکیم نے مشورہ دیا ہے کہ ’کذب‘ کے معنی ’جھوٹ‘ کریں اور اس جہالت کی بنیاد پر احادیث کا انکار کریں!
محدثین کا قد ماپنے کی بجائے اپنی بیماری کا علاج کروانا چاہییں! بالفاظ دیگر پہاڑ کو الٹا کرنے کی بجائے اپنی اس عینک کو درست کرلیں جو آپ کو سیدھی چیزوں کو ٹیڑھا دکھا رہی ہے!
معترضین اپنی تحریروں میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کی آراء مصدقہ قرآنی مفاہیم ہیں، جبکہ محدثین اور ان کے دفاع کرنے والوں نے ادھر ادھر سے راویوں کے ’’ قصے کہانیاں ‘‘ لے کر قرآن کا مقابلہ شروع کردیا ہے۔
گویا معترضین ’اہل قرآن‘ اور محدثین ’روایت پرست‘۔
حالانکہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ہمارا اختلاف ’قرآن‘ سے نہیں بلکہ منکرین و معترضین کے ’فہم قرآن‘ سے ہے۔ ہم ’احادیث‘ کا دفاع ’قرآن‘ کے مقابلے میں نہیں بلکہ معترضین جہلاء کے ’فہم قرآن‘ کے مقابلے میں کرتے ہیں۔
ہمارے تقابل کا موضوع ’قرآن‘ اور ’فہم سلف‘ نہیں بلکہ ’فہم سلف‘ اور ’معترضین کا فہم‘ ہے ۔ ظاہر ہے ہم ’چند اشخاص کی سوچ کی وجہ سے ایسے عقائد اور افکار کو نہیں چھوڑ سکتے جن پر سلف صالحین کا اتفاق ہے۔
سلف نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآنی شہادت ’انہ کان صدیقا نبیا‘ بھی پڑھی تھی اور حدیث کی کتابوں میں موجود ’کذبات ثلاثہ‘ والی روایت پھی پڑھی تھی، انہیں اس میں کوئی تعارض نظر نہیں آیا، لہذا نہ تو انہوں نے بخاری پر الزام لگایا نہ اس حدیث کے راویوں کے ’لتے‘ لیے ۔ ہمارے نزدیک ان کا فہم صحیح ہے، کیونکہ قرآن کی آیت بھی اس کے مخالف نہیں، لغت بھی اس کی تائید کرتی ہے۔
ہم سلف کو معصوم نہیں سمجھتے لیکن وہ غلط ہیں یا صحیح ہیں تو اس کا فیصلہ ہماری سوچ نہیں بلکہ شریعت کی نصوص سے ہوگا۔
اگر متجددین و معترضین کی ’عقل رساں‘ کے مطابق اس کو تقلید کہتے ہیں تو پھر ہم ’عصر حاضر کے چند جہلاء‘ کی بجائے علمائے امت کی ’تقلید‘ کا الزام قبول کرنا پسند کریں گے۔
مزید بھی آپ نے جتنی پھبتیاں کسنی ہیں، کس لیں، لیکن سلف نے جو موقف اختیار کیا ہے کیا قرآن کی کوئی آیت اس کی مخالف ہے؟ کوئی حدیث اس کے مخالف ہے؟ عربی لغت اس کے مخالف ہے؟
تو کس لیے ہم سلف کی بات کو چھوڑ دیں؟ صرف اس لیے کہ آپ کا ’علم و فہم‘ سلف کے موقف کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے؟! فیا للعجب!
نوٹ:
کذبات ثلاثہ ۔۔۔ کے موضوع پر حدیث پر اعتراضات کا تسلی بخش جائزہ مولانا اسماعیل سلفی صاحب رحمہ اللہ نے ایک مفصل مضمون میں لیا ہے جو کہ ’مقالات حدیث‘ کے اندر شامل ہے۔اس مضمون میں مولانا سلفی مرحوم نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کی فکر پر بھی تنقید سدید کی۔ جس کی وجہ سے اس وقت کے محبان مودودی حلقوں میں کہرام مچ گیا اور رسائل و جرائد کا مطلع اسی موضوع سے ابر آلود نظر آنے لگا حتی کہ ایک اہل حدیث عالم دین حکیم مقبول صاحب نے الاعتصام کے اندر ایک مضمون لکھا جس سے ایک دفعہ پھر موسم اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود حقیقت کے سورج کو چمکنے سے نہ روک سکا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ