سوال

ہمارے ہاں برطانیہ میں توہین رسالت، توہین قرآن اور اس جیسے دیگر مذہبی امور کے دفاع میں یورپ کے قانون کے مطابق احتجاجی ریلیاں ہوتی ہیں، جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکمران اور با اثر طبقے تک اپنی آواز کو پہنچایا جا سکے، اور اپنا حق لیا جا سکے۔ اس طریقے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بہتر کارگر طریقہ اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اس احتجاج کو شرعی نقطہ نظر سے دیکھنے والے دو طرح کے لوگ ہیں:
1: احتجاج کرنا شرعی راستہ نہیں ہے۔
2: یہی ہمارے پاس ایک راستہ ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
اب:کیا پر امن احتجاج شریعت میں جائز ہے؟
بسا اوقات فرط جذبات کی وجہ سے خصوصا نوجوان طبقے کی طرف سے نہ چاہتے ہوئے بھی تشدد اور نقصان بھی ہو جاتا ہے، اس صورت میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اللہ تعالی قرآن ِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

“لَا یُحِبُّ ٱللَّهُ ٱلۡجَهۡرَ بِٱلسُّوۤءِ مِنَ ٱلۡقَوۡلِ إِلَّا مَن ظُلِمَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِیعًا عَلِیمًا”. [سورۃ النساء:148]

’اللہ تعالی کو یہ پسند نہیں کہ تم اعلانیہ کسی کی برائی کرو، ہاں اگر کوئی مظلوم شخص ہو، تو وہ داستان ظلم کو اعلانیہ بیان کر سکتا ہے‘۔
اس آیت سے کسی قسم کے ظلم پر احتجاج کا جواز ملتا ہے۔حدیث سے بھی اس کی دلیل ملتی ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

“جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يَشكو جارَهُ، فقالَ : اذهَب فاصبِر فأتاهُ مرَّتينِ أو ثلاثًا، فقالَ: اذهَب فاطرَحْ متاعَكَ في الطَّريقِ فطرحَ متاعَهُ في الطَّريقِ، فجعلَ النَّاسُ يَسألونَهُ فيُخبِرُهُم خبرَهُ، فجَعلَ النَّاسُ يلعنونَهُ: فعلَ اللَّهُ بِهِ، وفَعلَ، فجاءَ إليهِ جارُهُ فقالَ لَهُ: ارجِع لا تَرى منِّي شيئًا تَكْرَهُهُ”.[ ابوداؤد:5153]

’ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کے رویے کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو ۔ پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا: جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو۔ تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا۔ لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ سن کر اس کے پڑوسی کو برا بھلا اور بد دعا دینے لگے، کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ گھر میں واپس آ جائیں، آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے، جو آپ کو ناپسند ہو‘۔
لہذا احتجاج کیا جاسکتا ہے، البتہ اس کے کچھ قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ضروری ہے:
نمبر1: احتجاج کا مقصد صرف اور صرف حکامِ بالا تک آواز پہنچانا ہو یا احتجاج ریکارڈ کروانا ہو،اس سے بڑھ کر گالم گلوچ یا غلط قسم کے تبصرے نہیں ہونے چاہییں۔
نمبر2: احتجاج اس انداز کا ہو کہ آنے جانے والوں کے لئے راستہ کھلا رکھا جائے، تاکہ گزرنے والوں کو کوئی رکاوٹ یا تکلیف نہ ہو۔
نمبر3:کسی قسم کا جلاؤ گھیراؤ ، اور توڑ پھوڑ بھی نہ کی جائے۔کیونکہ ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ شدت جذبات میں آکر مظاہرین توڑ پھوڑ کرتے ہیں، جلاؤ گھیراؤ ہوتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، گزرنے والوں کی گاڑیوں کو جلا دیا جاتا ہے ۔ تو ایسی صورت میں احتجاج بالکل ناجائز اور حرام ہے، پھر یہ احتجاج نہیں بلکہ دنگا اور فساد ہوگا۔ ہاں البتہ اگر مذکورہ شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو پھر احتجاج کرنا جائز ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ حافظ عبد الرؤف سندھو حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ