اختلاف میں احتیاط
دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہے۔ ہر شخص سے غلطی کا امکان موجود ہے اور وہ متنازعہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جب کسی سے مسائل میں اختلاف ہو جائے تو بہترین صورت یہ ہے کہ آدابِ اختلاف کو مد نظر رکھا جائے۔ اختلاف کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ اختلاف تعمیری اور مثبت ہو، علمی اور اصولی ہو۔
چند باتیں جو اختلاف کرتے ہوئے سامنے رکھی جائیں تو اختلاف کا وقار مجروح نہیں ہو گا، مثلاً:
1۔ احترام: ایک عالِم اور دانِش مَند شخص اپنے مخالف کا احترام ہمیشہ برقرار رکھتا ہے، اختلاف کرتے ہوئے کبھی کسی کو برے القاب سے نہ پکاریں اور نہ ہی اس کی اہانت کریں۔
2۔ نرمی اور بردباری: اپنے مد مقابل سے نرمی کے ساتھ بات کریں، غصے سے پرہیز کریں اور آواز کو بلند نہ ہونے دیں۔ اس طرح آپ کی دلیل زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔
3۔ دلیل کی بنیاد پر گفتگو: اپنا موقف دلیل سے پیش کریں، سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں سے اجتناب کریں، معتبر کتب و ذرائع کا حوالہ دیں۔
4۔ صبر و تحمل: کسی کی بات کو کاٹ کر بات نہ کریں، بلکہ مخالف کی بات مکمل ہونے پر نہایت تحمل سے اپنی بات کریں، کیونکہ دوسرے کے موقف کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے لہٰذا صبر و تحمل سے غور کریں۔
5۔ بدگمانی سے بچیں: اپنے مخالف کے بارے میں بدگمانی کی بجائے حُسنِ ظن سے کام لیں، ممکن وہ اپنی بات مکمل بیان نہ کر پایاہو، آپ کو متکلم کی جس بات سے اختلاف ہو اس کی وضاحت بھی متکلم سے کرائی جائے نہ کہ خود ہی وضاحت شروع کر دیں۔آپ کی تشریح قابلِ قبول نہیں، کیونکہ ہر شخص اپنی مرضی کا مطلب نکالے گا جس کی وجہ سے مزید غلط فہمیاں پیدا ہوں گی۔
6۔ حق کو تسلیم کرنا: ایک دوسرے کے موقف کو سننے کے بعد جو بات حق ہو اسے تسلیم کرنے میں تامّل نہ کریں، ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیں، یہی ایک عالِم کی شان ہے۔
7۔ حکمت و دانائی: اختلاف کرتے ہوئے یہ ضرور دیکھیں کہ جہاں اختلاف کی گنجائش ہے اگر دو رائے ہو بھی جائیں تو کسی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں، اس پر خاموش رہنا حکمت ہے، ضروری نہیں کہ صرف آپ کا موقف ہی درست ہو۔
گزشتہ ماہ دنیا اسلام کے ممتاز داعی جناب ڈاکٹر ذاکر نائک حفظہ اللہ پاکستان تشریف لائے۔ انہوں نے مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کیے۔ جسے اکثریت نے پسند کیا، بلکہ مخالفین نے بھی ان کی تعریف کی، لیکن ان کی روانگی سے ایک دن پہلے بعض محترم علماء کرام نے ان پر تنقید کی اور ان کی بعض باتوں سے شدید اختلاف کیا۔ یہاں تک کہ بعض نے جوشِ خطابت میں انہیں “جاہل” بھی کہا جو کہ غیر مناسب بات ہے۔ اس لیے کہ علمی اعتبار سے ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو تمام علوم کا احاطہ کر سکتا ہو۔ ایسا ہو سکتا ہے ایک آدمی شرعی علوم کا ماہر ہو لیکن علم الابدان میں جاہل ہو۔ ہو سکتا ہے ایک شخص علم الفرائض کا ماہر ہو مگر علم الحدیث میں کمزور ہو، اور یہ صورتحال ہم سب میں موجود ہے۔
قرآن حکیم میں ہے:
وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ۔(یوسف: 76)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(وفوق كل ذي علم عليم)، قال: يكون هذا أعلم من هذا , وهذا أعلم من هذا , والله فوق كل عالم۔ (تفسیر طبری: 16/192)
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: في قوله:
(وفوق كل ذي علم عليم) ، قال: ليس عالمٌ إلا فوقه عالم، حتى ينتهي العلم إلى الله۔ (تفسیر طبری: 16/193)
ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ MBBS ڈاکٹر ہیں۔ اس سبب سے اپنی گفتگو میں بعض دفعہ طِبّ کے حوالے سے بات کرتے ہیں، جو لوگ اس سے ناواقف ہیں بلا شبہ وہ علم الطب میں جاہل ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہمیں اس طرح کی گفتگو سے احتیاط کرنی چاہیے۔ ہم سب جانتے ہیں سورۃ الکہف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ ذکر کیا جو کسی اللہ کے بندے کی تلاش میں نکلے تاکہ ان سے علم حاصل کریں، فرمایا:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا۔ (الکہف: 65)
مقصد واضح ہے کہ کسی کے پاس بھی علم مکمل نہیں ہو سکتا، فرمایا:
وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا۔ (الاسراء: 85)
اس لیے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمام علوم کا احاطہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کا یہ دعویٰ ہے۔ البتہ تقابلِ ادیان میں اللہ تعالیٰ نے انہیں جو مہارت دی ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ ہمیں یہ تو تسلیم کرنا چاہیے۔ باقی جن باتوں سے اختلاف ہو بہت بہتر ہے کہ ان سے ہی اس کی وضاحت کرائی جاتی تو معاملہ ختم ہو جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا!
ہماری تمام معزز علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کا ذکر کیے بغیر اپنا موقف پیش فرما دیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق جو صحیح بات ہے اس سے عوام کو اگاہ فرمائیں۔ ضروری نہیں کہ بار بار ڈاکٹر ذاکر نائیک کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ آپ سب داعی ہیں، ہم دل سے آپ کی قدر کرتے ہیں اور آپ کے اخلاص پر بھی شک نہیں۔ لیکن اُسلوبِ دعوت میں حکمت سے کام لیں۔ امید ہے اس سے معاملہ بھی حل ہو جائے گا اور کسی کی دل ازاری بھی نہیں ہوگی۔
تحریر: فضیلۃ الشیخ پروفیسر چودھر ی محمد یٰسین ظفر حفظہ اللہ تعالیٰ
مدیر التعلیم جامعہ سلفیہ فیصل آباد