’اختلاط مرد و زن، شبہات کا ازالہ’ قابل رشک کتاب ہے

اختلاط مرد و زن عصر حاضر کے اہم مسائل میں سے ہے۔
مرد وزن کا مل کر ایک جگہ پر کام کرنا، کو ایجوکیشن وغیرہ یہ سب مسائل اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اصول حدیث اور جرح و تعدیل کی مباحث میں بھی ایک اصطلاح ’اختلاط’ استعمال ہوتی ہے، وہ بالکل اس سے مختلف چیز ہے!
عربی میں مخلوط معاشرت اور اختلاط مرد و زن پر کئی ایک کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں سے ایک بہترین کتاب فضیلۃ الشیخ عبد العزیز الطریفی حفظہ اللہ کی ہے۔ اسي طرح سعيد بن وهف القحطاني، إسماعيل المقدم اور شحاتة صقر وغيره کی کتابیں بھی اچھی ہیں۔
اردو میں اس پر سرسری تحریر یا مختصر فتاوی یا ’مخلوط معاشرہ’ اور ’مخلوط نظام تعلیم’ وغیرہ عناوین سے کچھ مختصر کتابچے ہیں۔ لیکن ’شہبات کے ازالے’ پر کوئی تفصیلی کتاب نظر سے نہیں گزری۔
الحمدللہ بہت خوشی ہوئی، حافظ عبد الرحمن المعلمی حفظہ اللہ کی کتاب دیکھ کر، جس میں آپ عربی کتب سے استفادہ کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ کو زیر بحث لائے ہیں۔
اللہ تعالی ان کی محنت و کاوش کو قبول فرمائے۔
کتاب کے شروع میں بعض اہل علم کی بھاری بھر کم تقاریظ ہیں، جس کے بعد میرے جیسے طالبعلم کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
ہاں یہ ہے کہ کوئی بھی چیز بشری لغزشوں سے خالی نہیں ہوتی اور بہتری کے امکانات بہرصورت موجود ہوتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ’اختلاط مرد و زن، شبہات کا ازالہ’ قابل رشک کتاب ہے۔ ایک دو گزارشات تھیں، جو پرسنل میں عرض کر دی ہیں!
معلمی صاحب ان نوجوان اہل علم میں سے ہیں، جن کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کے لیے بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ جو دیگر طلبہ اور نوجوانوں کے لیے ایک نمونہ ہیں کہ انسان کس طرح سوشل میڈیائی مصروفیات کے باوجود خالص علمی و تحقیقی کام سرانجام دے سکتا ہے۔
جس شخص کو خود پڑھنے، تحقیق کرنے اور غور وفکر کی توفیق ملی ہو، یہ ممکن نہیں کہ لوگ اس پر تنقید نہ کریں، اور بالخصوص اس وقت جب اللہ تعالی کسی صاحب علم سے کوئی کام لیتا ہے، تو ارد گرد بہت سارے لوگ جس طرح سراہنے والے ہوتے ہیں، اسی طرح تنقید کرنے والے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
معلمی صاحب سے اللہ تعالی جس طرح کام لے رہا ہے، اور جس طرح چھوٹے بڑے ان کی پذیرائی کر رہے ہیں، انہیں اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے کہ کچھ ’چھوٹے بڑے’ ان کے بارے میں ’تحقیق’ بھی کر رہے ہوں گے کہ ان کے منہج اور سلوک و اخلاقیات میں کہاں کہاں ’گمراہیاں’ پائی جاتی ہیں۔
یہ میں بات اس لیے کر رہا ہوں کہ پچھلے دنوں ایک تحریر نظر سے گزری تھی، جس میں کچھ اسکرین شارٹس کے ساتھ ایک لمبی چوڑی تحریر میں اس قسم کی کچھ باتیں کہی گئی تھیں۔ حالانکہ مسائل میں اختلاف کے وقت اپنا نقطہ نظر بیان کرنا کوئی بری بات نہیں، لیکن اپنے جیسے علماء و طلبہ کے بارے میں منفی کمپینز چلانا اور عین اس وقت جب اللہ تعالی کسی معاملے میں انہیں قبولیت عطا کرے، یہ ایک منفی جذبہ ہے، جو امراض القلوب سے تعلق رکھتا ہے، ملانے والے بھلا اسے جس مرضی منہجی یا مسلکی مسئلے کے ساتھ نتھی کر دیں!!
اللہ تعالی سب کو نفس کی شرارتوں سے محفوظ فرمائے۔

آج کل کتاب لکھنا آسان کام نہیں، کتاب لکھیں، پھر چھپوانے کا بندوبست کریں، پھر اس کی مارکیٹنگ کریں، کئی لوگوں کو مفت میں بھيجیں، اور پھر بار بار پوچھیں، مل گئی ہے یا نہیں، وغیرہ۔

اس زمانے میں بھی اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ ’علماء کیا کر رہے ہیں؟’ تو ایسے دوستوں سے گزارش ہے کہ آپ کی نظر میں جو علماء نہیں کر رہے، وہ آپ سر انجام دے لیں، علماء جس میں لگے ہوئے ہیں، ان کو لگے رہنے دیں!!

اللہ تعالی تمام اہل علم کی طرف سے اصلاح معاشرہ کے لیے سر انجام دی جانے والی جمیع کوششوں کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے!!

#خیال_خاطر