سوال (2852)
دین میں بھول چوک معاف ہے، سوال یہ ہے کہ کیا جو بندہ علم پڑھ کر بھول جائے تو کیا یہ بھی معاف ہے، اسی طرح حفظ القرآن کا کیا معاملہ ہوگا؟
جواب
1:امام نووی رحمہ اللہ (631-676ھ)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“علم کو بھول جانا بہت بڑی مصیبت اور نقصان ہے۔ اہل علم کو چاہیے کہ وہ علم کی حفاظت کے لیے ہمیشہ محنت کریں، کیونکہ علم کو بھول جانا انسان کی کوتاہی اور سستی کی علامت ہے۔
(التبیان فی آداب حملۃ القرآن)
2 : امام شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ)
امام شافعی فرماتے ہیں:
“علم یاد کرنے سے مضبوط ہوتا ہے اور اسے ضائع کرنے سے زوال پذیر ہوتا ہے۔ اگر تم علم کو محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو اسے بار بار دہراتے رہو، کیونکہ علم بھولنے سے تمہارے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے”۔
(سیر اعلام النبلاء)
3 : امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463ھ)
امام ابن عبدالبر کہتے ہیں:
“علم کو بھول جانا گناہ کے قریب ہے۔ جس شخص نے علم سیکھا اور پھر اسے بھلا دیا، وہ خود پر ظلم کرتا ہے”۔
(جامع بيان العلم وفضله)
4 : امام بخاری رحمہ اللہ (194-256ھ)
امام بخاری فرماتے ہیں:
“علم کو بھول جانا بدبختی کی نشانی ہے، اور اسے یاد رکھنے کے لیے علم کو دہراتے رہنا بہت ضروری ہے۔”
(الأدب المفرد)
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
جی اس امت سے بھول چوک معاف ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْه” [سنن ابن ماجة : 2045]
«بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیے ہیں»
باقی رہی بات یہ کہ جو علم پڑھتے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں، اس کے لیے معافی ہے یا نہیں ہے، سب سے اول میں اس بات کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ جو علم آپ پڑھ چکے ہیں، اس کو یاد رکھنا ضروری ہے، کیونکہ آپ سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا کہ جو کچھ آپ پڑھ چکے ہیں، اس پر آپ نے کتنا عمل کیا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے۔
سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ هُوَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ مَوْلَى أَبِي بَرْزَةَ، وَأَبُو بَرْزَةَ اسْمُهُ: نَضْلَةُ بْنُ عُبَيْدٍ” [سنن الترمذي : 2417]
“قیامت کے دن کسی بندے کے دونوں پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے: اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا، اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا اور اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا”
جو علم یاد کیا ہے، اس کو یاد رکھنے کا اہتمام کرے، باقی جو علم فطرتاً بھول گیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کیا ہے۔
باقی رہی بات یہ کہ جس نے قرآن مجید حفظ کیا تھا، قرآن مجید کو بھول گیا ہے، اس کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا، یہ اس کی لاپرواہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“تَعَاهَدُوا هَذِهِ الْمَصَاحِفَ وَرُبَّمَا قَالَ الْقُرْآنَ فَلَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهِ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ” [صحيح مسلم : 1842]
«ان مصاحف۔ اور کبھی کہا: قرآن ۔۔کے ساتھ تجدید عہد کرتے رہا کرو کیونکہ وہ انسانوں کے سینوں سے بھا گ جا نے میں اپنے پاؤں کی رسیوں سے نکل بھاگنے والے اونٹوں سے بھی بڑھ کر ہے کہا :اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا “تم میں سے کسی کو یہ نہیں کہنا چا ہیے کہ میں فلا ں فلا ں آیت بھول گیا ہوں بلکہ اسے بھلوا دیا گیا ہے۔»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّمَا مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ” [صحيح البخاري: 5031]
«حافظ قرآن کی مثال رسی سے بندھے ہوئے اونٹ کے مالک جیسی ہے اور وہ اس کی نگرانی رکھے گا تو وہ اسے روک سکے گا ورنہ وہ رسی تڑوا کر بھاگ جائے گا»
اس حدیث میں بڑی پابندی سے قرآن مجید یاد کرنے کا کہا گیا ہے، جس نے پابندی نہیں کی ہے، اس نے ناموافق کام کیا ہے، باقی ہم اس کو کسی گناہ کے ساتھ متصف کریں، یہ کسی نص کے ساتھ ثابت نہیں ہے، بلکہ افضل کام اس کے ذمے تھا جو اس نے چھوڑ دیا ہے۔
بعض لوگ قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں۔
“وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى” [سورة طه : 124]
«اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے»
اس آیت میں ذکر سے مراد قرآن مجید لیتے ہیں، اعراض سے مراد بھول جانا لیتے ہیں، گویا اس آیت کو ان لوگوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں، جو قرآن مجید کو بھول جاتے ہیں، ان کی معیشت تنگ ہوجاتی ہے، قیامت کے دن نابینے بنا کر اٹھائے جائیں، حالانکہ یہ آیت اس معنی کے ساتھ خاص نہیں ہے، در حقیقت اس سے مراد وہ کفار ہیں، جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات آئی تھیں، لیکن انہوں نے منہ موڑ لیا تھا۔ یہ نسیان سے مراد ترک ہے۔
فضیلۃ العالم محمد فہد محمدی حفظہ اللہ
قرآن کریم کو حفظ کیا اور پھر بھلا دیا اور اس کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا نہ ہی قرآن کریم کے حقوق کا خیال رکھا تو اس کے لیے وعید وسزا وارد ہوئی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرُّؤْيَا قَالَ أَمَّا الَّذِي يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفِضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی الله بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن کا حافظ تھا مگر وہ قرآن سے غافل ہو گیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔
دوسرا ترجمہ یوں ہے:
جس شخص کو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے الله تعالی نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔
[صحیح البخاری: 1143]
ﻗﺎﻝ اﻟﻤﻬﻠﺐ: ﻭﻗﻮﻟﻪ ﻓﻰ ﺣﺪﻳﺚ ﺳﻤﺮﺓ: (ﻳﺄﺧﺬ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻓﻴﺮﻓﻀﻪ) ، ﻳﻌﻨﻰ ﻳﺘﺮﻙ ﺣﻔﻆ ﺣﺮﻭﻓﻪ ﻭاﻟﻌﻤﻞ ﺑﻤﻌﺎﻧﻴﻪ، ﻓﺄﻣﺎ ﺇﺫا ﺗﺮﻙ ﺣﻔﻆ ﺣﺮﻭﻓﻪ ﻭﻋﻤﻞ ﺑﻤﻌﺎﻧﻴﻪ ﻓﻠﻴﺲ ﺑﺮاﻓﺾ ﻟﻪ، ﻟﻜﻨﻪ ﻗﺪ ﺃﺗﻰ ﻓﻰ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺃﻧﻪ ﻳﺤﺸﺮ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ ﺃﺟﺬﻡ( قلت الطيبي هذا حديث ضعيف) ﺃﻯ ﻣﻘﻄﻮﻉ اﻟﺤﺠﺔ، ﻭاﻟﺮاﻓﺾ ﻟﻪ ﻳﺜﻠﻎ ﺭﺃﺳﻪ ﻭﺫﻟﻚ ﻟﻌﻘﺪ اﻟﺸﻴﻄﺎﻥ ﻓﻴﻪ، ﻓﻮﻗﻌﺖ اﻟﻌﻘﻮﺑﺔ ﻓﻰ ﻣﻮﺿﻊ اﻟﻤﻌﺼﻴﺔ. ﻭﻗﻮﻟﻪ: (ﻳﻨﺎﻡ ﻋﻦ اﻟﺼﻼﺓ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ) ، ﻳﻌﻨﻰ ﻟﺨﺮﻭﺝ ﻭﻗﺘﻬﺎ ﻭﻓﻮاﺗﻪ، ﻭﻫﺬا ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺘﻮﺟﻪ ﺇﻟﻰ ﺗﻀﻴﻴﻊ ﺻﻼﺓ اﻟﺼﺒﺢ ﻭﺣﺪﻫﺎ، ﻷﻧﻬﺎ ﻫﻰ اﻟﺘﻰ
ﺗﺒﻄﻞ ﺑﺎﻟﻨﻮﻡ، ﻭﻫﻰ اﻟﺘﻰ ﺃﻛﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺤﺎﻓﻈﺔ ﻋﻠﻴﻬﺎ، ﻭﻓﻴﻬﺎ ﺗﺠﺘﻤﻊ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ، ﻭﺳﺎﺋﺮ اﻟﺼﻠﻮاﺕ ﺇﺫ ﺿﻴﻌﺖ ﻓﺤﻤﻠﻬﺎ ﻣﺤﻤﻠﻬﺎ، ﻟﻜﻦ ﻟﻬﺬﻩ اﻟﻔﻀﻞ
[شرح صحيح البخارى :3/ 136]
كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ہے:
ﻭ ﻗﻮﻟﻪ: ﻳﺄﺧﺬ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻓﻴﺮﻓﻀﻪ ﻳﺤﺘﻤﻞ ﻭﺟﻬﻴﻦ: ﺃﺣﺪﻫﻤﺎ: ﻳﺮﻓﺾ ﺗﻼﻭﺗﻪ ﺣﺘﻰ ﻳﻨﺴﺎﻩ. ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ: ﻳﺮﻓﺾ اﻟﻌﻤﻞ ﻟﻪ
[كشف المشكل من حديث الصحيحين : 2/ 38]
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ
اور قرآن کریم تیرے حق میں دلیل بنے گا یا تیرے خلاف دلیل بنے گا۔
[صحیح مسلم : 223 ، سنن ترمذی :(3517)، سنن نسائی: 2537 ، مسند أحمد بن حنبل : 22902 ،22908]
حافظ نووی نے کہا:
ﻗﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭاﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻚ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ ﻓﻤﻌﻨﺎﻩ ﻇﺎﻫﺮ ﺃﻱ ﺗﻨﺘﻔﻊ ﺑﻪ ﺇﻥ ﺗﻠﻮﺗﻪ ﻭﻋﻤﻠﺖ ﺑﻪ ﻭﺇﻻ ﻓﻬﻮ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻚ
[شرح النووى على مسلم :3/ 102]
ﺃﻱ ﺗﻨﺘﻔﻊ ﺑﻪ ﺇﻥ ﺗﻠﻮﺗﻪ ﻭﻋﻤﻠﺖ ﺑﻪ ﻭﺇﻻ ﻓﻬﻮ ﻋﻠﻴﻚ ﺣﺠﺔ
[شرح السيوطى على مسلم:2/ 12]
شیخ ابن عثیمین رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:
((ﻭاﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻚ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ)) ﻷﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻫﻮ ﺣﺒﻞ اﻟﻠﻪ اﻟﻤﺘﻴﻦ، ﻭﻫﻮ ﺣﺠﺔ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﺧﻠﻘﻪ، ﻓﺈﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻚ، ﻭﺫﻟﻚ ﻓﻴﻤﺎ ﺇﺫا ﺗﻮﺻﻠﺖ ﺑﻪ ﺇﻟﻲ اﻟﻠﻪ، ﻭﻗﻤﺖ ﺑﻮاﺟﺐ ﻫﺬا اﻟﻘﺮﺁﻥ اﻟﻌﻈﻴﻢ ﻣﻦ اﻟﺘﺼﺪﻳﻖ ﺑﺎﻷﺧﺒﺎﺭ، ﻭاﻣﺘﺜﺎﻝ اﻷﻭاﻣﺮ، ﻭاﺟﺘﻨﺎﺏ اﻟﻨﻮاﻫﻲ، ﻭﺗﻌﻈﻴﻢ ﻫﺬا اﻟﻘﺮﺁﻥ اﻟﻜﺮﻳﻢ ﻭاﺣﺘﺮاﻣﻪ. ﻓﻔﻲ ﻫﺬﻩ اﻟﺤﺎﻝ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻚ.
ﺃﻣﺎ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻷﻣﺮ ﺑﺎﻟﻌﻜﺲ، ﺃﻫﻨﺖ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﻭﻫﺠﺮﺗﻪ ﻟﻔﻈﺎ ﻭﻣﻌﻨﻲ ﻭﻋﻤﻼ، ﻭﻟﻢ ﺗﻘﻢ ﺑﻮاﺟﺒﻪ؛ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﺷﺎﻫﺪا ﻋﻠﻴﻚ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ.
ﻭﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ اﻟﺮﺳﻮﻝ ﺻﻠﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺮﺗﺒﺔ ﻫﺎﺗﻴﻦ اﻟﻤﺮﺗﺒﺘﻴﻦ!
ﻳﻌﻨﻲ: ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﺃﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻻ ﻟﻚ، ﻭﻻ ﻋﻠﻴﻚ؛ ﻷﻧﻪ ﻻﺑﺪ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﺇﻣﺎ ﻟﻚ ﻭﺇﻣﺎ ﻋﻠﻴﻚ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﺣﺎﻝ. ﻓﻨﺴﺄﻝ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﺠﻌﻠﻪ ﻟﻨﺎ ﺟﻤﻴﻌﺎ ﺣﺠﺔ ﻧﻬﺘﺪﻱ ﺑﻪ ﻓﻲ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭﻓﻲ اﻵﺧﺮﺓ؛ ﺇﻧﻪ ﺟﻮاﺩ ﻛﺮﻳﻢ
[شرح رياض الصالحين :1/ 192]
محدث مدینہ عبدالمحسن العباد لکھتے ہیں:
اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻠﻤﺮء ﺃﻭ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ
ﺛﻢ ﻗﺎﻝ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ: (ﻭاﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻚ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ) ﺃﻱ: ﺃﻥ اﻟﻨﺎﺱ ﻳﻨﻘﺴﻤﻮﻥ ﺇﻟﻰ ﻗﺴﻤﻴﻦ ﺑﺎﻟﻨﺴﺒﺔ ﻟﻠﻘﺮﺁﻥ: ﻓﻤﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻪ، ﻭﻫﻮ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻮﻡ ﺑﻤﺎ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻴﻪ ﻧﺤﻮﻩ ﻣﻦ ﺗﻼﻭﺗﻪ ﺣﻖ ﺗﻼﻭﺗﻪ، ﻭﺗﺪﺑﺮﻩ، ﻭﺗﺼﺪﻳﻖ ﺃﺧﺒﺎﺭﻩ، ﻭاﻣﺘﺜﺎﻝ ﺃﻭاﻣﺮﻩ، ﻭاﺟﺘﻨﺎﺏ ﻧﻮاﻫﻴﻪ.
ﻭﺇﺫا ﺃﻋﺮﺽ ﻋﻨﻪ، ﻭﺃﻫﻤﻞ ﺣﺪﻭﺩﻩ، ﻭﻟﻢ ﻳﺤﺼﻞ ﻣﻨﻪ اﻹﺗﻴﺎﻥ ﺑﺎﻷﻭاﻣﺮ ﻭﺗﺮﻙ اﻟﻨﻮاﻫﻲ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ، ﻓﺎﻟﻨﺎﺱ ﺑﻴﻦ ﺭاﺑﺢ ﻭﺧﺎﺳﺮ، ﻓﺎﻟﺮاﺑﺢ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻪ، ﻭاﻟﺨﺎﺳﺮ ﻣﻦ ﻛﺎﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ, ﻓﺈﻣﺎ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻠﻤﺮء؛ ﻭﺫﻟﻚ ﺇﺫا ﺃﺗﻰ ﺑﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻄﻠﻮﺏ ﻣﻨﻪ ﻧﺤﻮ اﻟﻘﺮﺁﻥ، ﺃﻭ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺄﺕ ﺑﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻄﻠﻮﺏ ﻣﻨﻪ ﻧﺤﻮ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺑﺄﻥ ﻳﺨﻞ ﺑﺎﻷﻭاﻣﺮ ﻭاﻟﻨﻮاﻫﻲ، ﻓﻴﻘﺼﺮ ﻓﻲ اﻟﻤﺄﻣﻮﺭاﺕ ﻭﻳﻘﻊ ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻈﻮﺭاﺕ، ﻭﻻ ﻳﺤﺼﻞ ﻣﻨﻪ اﻻﻟﺘﺰاﻡ ﺑﻤﺎ ﺟﺎء ﻋﻦ اﻟﻠﻪ ﻭﻋﻦ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻴﻜﻮﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ.
ﻭﻫﺬا اﻟﺬﻱ ﺟﺎء ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﺎﻟﻚ اﻷﺷﻌﺮﻱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻮﻝ ﻓﻴﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: (ﻭاﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻚ ﺃﻭ ﻋﻠﻴﻚ) ﻫﻮ ﻧﻈﻴﺮ ﻣﺎ ﺟﺎء ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ -ﺃﻳﻀﺎ- ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: (ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻳﺮﻓﻊ ﺑﻬﺬا اﻟﻜﺘﺎﺏ ﺃﻗﻮاﻣﺎ ﻭﻳﻀﻊ ﺑﻪ ﺁﺧﺮﻳﻦ) ﻓﻤﻦ ﺭﻓﻌﻪ اﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺣﺠﺔ ﻟﻪ، ﻭﻣﻦ ﻭﺿﻌﻪ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺧﻔﻀﻪ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻴﻪ
[شرح الأربعين النووية، العباد]
غور کریں اگر قرآن کریم کو اصلا بھا دیا یا حفظ کرنے کے بعد یکساں بھلا دیا نہ تو اسے یاد رکھا نہ ہی اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو بلاشبہ قرآن کریم اس کے خلاف شکایت کرے گا اور اس کی شکایت اسی طرح سنی جائے گی جس طرح اس کی شفاعت سنی اور قبول کی جائے گی۔
ان الفاظ کی عمدہ توضیح دیکھیے جامع العلوم و الحكم لابن رجب : 2/ 26
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭﻭاﺩ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ اﻟﻀﺤﺎﻙ ﺑﻦ ﻣﺰاﺣﻢ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﻣﻦ ﺃﺣﺪ ﺗﻌﻠﻢ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺛﻢ نسيه ﺇﻻ ﺑﺬﻧﺐ ﻳﺤﺪﺛﻪ؛ ﻷﻥ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ ﻳﻘﻮﻝ: {ﻭﻣﺎ ﺃﺻﺎﺑﻜﻢ ﻣﻦ ﻣﺼﻴﺒﺔ ﻓﺒﻤﺎ ﻛﺴﺒﺖ ﺃﻳﺪﻳﻜﻢ}
[ اﻟﺸﻮﺭﻯ: 30]
ﻭﺇﻥ نسيان اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻣﻦ ﺃﻋﻈﻢ اﻟﻤﺼﺎﺋﺐ
فضائل القرآن للقاسم بن سلام : ص : 202، واللفظ له، تفسير ابن أبي حاتم الرازي 18484 ،الزهد والرقائق لابن المبارك :(85) ،مصنف ابن أبي شيبة : 29996، شعب الإيمان للبيهقي: 1813 سنده حسن لذاته لأجل عبد العزيز بن أبي رواد
علم دین یعنی قرآن وحدیث کے علم کو حاصل کرنے کے بعد اس کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھنا اور اس کی تعلیمات کو یکساں بھول جانا باعث ہلاکت ہے اور یہ ظاہر ہے کہ علم دین زندہ رہتا ہے اس کے ساتھ تعلق قائم رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کے ساتھ دعوت واصلاح کا کام کرنے سے اور جس نے علم دین سیکھا پھر دنیاداری میں مشغول ہو کر اسے بھلا دیا اور کبھی اس کی طرف رجوع نہیں کیا نہ ہی علم دین کے حصول کے مقاصد کو اختیار کیا تو اسے رب العالمین کی عدالت میں ضرور حساب دینا ہو گا کیونکہ ایک تو جہاں رہ کر علم حاصل کیا وہاں اسے طعام و رہائش وغیرہ جیسی سہولیات فراہم کی گئیں مگر اس نے کا حق ادا نہیں کیا اور دوم علم دین کے ساتھ عمل بھی نہیں کیا نہ ہی دعوت وتبلیغ کا کام کیا تو یہ واضح مجرم ہے جس کی سزا جو بنتی ہے وہ رب العالمین اسے دیں گے۔
باقی جس طرح کی بھول چوک کی معافی ہے وہ علم دین کو یکساں بھول جانے کی طرح ہرگز نہیں ہے۔
باقی علوم شرعیہ کی اہمیت وفضیلت اور اس کی قدر جاننی ہے تو قرآن وحدیث، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین وسلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کریں امام خطیب بغدادی کی کتاب
الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، إقتضاء العلم العمل للخطيب، تقييد العلم، شرف أصحاب الحديث،
کتب احادیث میں موجود کتاب العلم وغیرہ کو پڑھیے اور کتب رجال و تراجم کو بھی تاکہ معلوم ہو کہ سلف صالحین، ائمہ محدثین نے کس قدر علوم شرعیہ کی قدر کی اور کس طرح اس کے لیے کمال قربانیاں دیں اور مثالی خدمات پیش کیں۔
رب العالمین ہمیں سلف صالحین ،ائمہ محدثین کی طرح علم دین اور اس کی تعلیمات کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور رب العالمین جمیع سلف صالحین وائمہ محدثین سے راضی ہوں.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ