پہلے جب میں نے علم حدیث کو غور سے نہیں دیکھا تھا میں سمجھ رہا تھا کہ ، نحو ، صرف ، منطق اور فقہ و اصول فقہ وغیرہ مشکل علوم ہیں، مگر اب بہت تحقیق وتفتیش اور عمر گزارنے کے بعد پتہ چلا کہ سب سے مشکل علم اگر کوئی ہے تو وہ  “علم حدیث ” ہے بلکہ صحیح ترین الفاظ میں انگاروں اور کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس پرگرفت پانے اور مہارت حاصل کرنے کےلیے کم ازکم 11 ، 12 علوم وفنون کا ازبر ہونا انسان کےلیے ضروری ہے ، یہ بات میں نے خوش فہمی کی بنیاد پرنہیں کہی ،بلکہ یہ حقیقت ہے مثلا:

(1) ایک حدیث کی تصحیح میں ہرراوی کا پہچاننا ضروری ہے۔

(2) اس کے حافظہ کا علم ہونا ضروری ہے۔

(3) اس کے زبان کے متعلق صدق و کذب کی آگاہی ضروری ہے۔

(4) مروی عنہ شیخ سے ملاقات یا معاصرت کاعلم ہونا چاہئے۔

(5) اس راوی کے مذہب کاعلم ہونا چاہئے تاکہ اس کا بدعتی ہونا اور پھر اس داعی ہونا یانہ ہونا معلوم ہوجائے۔

(6) یہ ضروری کہ وہ روایت شاذ نہ ہو۔

(7) یہ بھی لازم ہے کہ وہ روایت منکر نہ ہو اس کا مطلب کہ ایک حدیث کے ساتھ ہم دیگر روایات کو بھی بنظرِ غائر دیکھناہوگا۔

(8)اور یہ روایت قران کی مخالف نہ ہو۔

(9) اور یہ روایت سنتِ متواترہ کے خلاف نہ ہو۔

(10) یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ وہ راوی مدلس نہ ہو۔

(11) اس روایت میں زیادات اورکمی کابھی علم ضروری ہے اورساتھ ضروری کہ کمی اور زیادہ کرنے والے راوی کاعلم ہو۔

(12) یہ بھی ضروری ہے کہ فلان راوی فلان سے روایت میں ثقہ ہے اور فلان سے روایت کرنے میں ضعیف ہے۔

(13) پھر استاد کے ساتھ تعلق کا علم ہونا چاہئے  کہ کثیر الصحبت ہے یا قلیل الصحبت

(14) پھر یہ بھی علم ضروری ہے کہ وہ اس سے اختلاط سے قبل کے راوی ہے یا پھر بعد کے راوی ہیں، اسی طرح پھر جرح و تعدیل کے سینکڑوں مسائل ہیں جن کاذکر ہم قصدا للاختصار نہیں کررہے ہیں۔

اللہ تعالی ان محدثینِ کرام کو جنت الفردوس نصیب فرمائے اور ان کے کوششوں کو قبول فرمائے۔ جنھوں کتابیں تصنیف کرکے اور آحادیث پرحکم لگاکر ہمیں ان ہزارہا مشکلات سے محفوظ رکھا ، اورہمارے سامنے پکی پکائی روٹی رکھ دی، ورنہ اگر یہ محدثینِ کرام نہ ہوتے تو ہماری تو ساری زندگی پانچ چھ آحادیث کی صحت کو معلوم کرنے کی نذر ہوجاتی، اور اس بڑہاپے کے مطالعے میں میں سمجھ گیا کہ حدیث پرتحقیقی کام کرنے والے اہل علم اور محدثین اس قابل ہیں کہ ان کو زرو جواہر کے ساتھ تولا جائے، اوراگر ہم یہ کام نہیں کرسکتے تو ہرنماز کے بعد ان کے لیے دعا تو کرسکتے ہیں، اس عظیم احسان کایہی بدلہ ہم دنیا میں دے سکتے ہیں لہذا کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے اور اس مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انکارِ حدیث ایک بڑا سبب ان لوگوں کا تساہل اور دون ہمتی بھی ہے، چون ندند حقیقت رہِ افسانہ زدند ، پھر یہ بات بھی ہے کہ اس علم میں طالبِ شہرت لوگ نہیں چل سکتے کیونکہ ان کو سرعت سے مفکرِاسلام اورسکالر بننے کا شوق ہوتا ہے اور اس علم میں پوری زندگی کھپانی پڑتی ہے پھر کہیں جاکر نام مشہور ہوجاتا ہے.

واصل واسطی