اساتذہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ علوم اسلامیہ کی تحصیل کے لئے علم نحو کا ٹھیک ٹھیک فہم، اس کا مکمل اجراء اور اس کے قواعد کا صحیح استعمال ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا نحو کی تعلیم پر آنے والے ہر علم و فن کی تحصیل موقوف ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور رہ جائے تو آخر تک کی پوری تعلیم کمزور، بے اثر اور بے ثبات ہو جاتی ہے۔ اس لئے نحو کے استاذ کی ذمہ داری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اور اس سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے(بجا آوری) کے لئے مندرجہ ذیل امور کی رعایت ناگزیر اور لازمی ہے۔

1) نحو کی تعلیم میں اصل مقصد کتاب کی عبارت یاد کرانا
نہیں، بلکہ اس میں بیان کردہ قواعد و مسائل کو طالب علم کے اس طرح ذہن نشین کرانا ہے کہ متعلقہ موقع پر طالب علم کو وہ قاعدہ یا مسئلہ یاد آ جائے۔

2) کتاب میں عموماً کسی اصطلاح یا قاعدے کی تشریح کے لئے صرف ایک مثال پر اکتفا کیا گیا ہے، لیکن استاذ کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ ہر اصطلاح اور قاعدے کی تشریح کے لئے طلبہ کے سامنے از خود بہت سی مثالیں بیان کرے، اور بہتر یہ ہے کہ یہ مثالیں عام گفتگو کے علاوہ قرآن کریم سے بھی اخذ کی جائیں تا کہ قرآن کریم سے بھی مناسبت پیدا ہوتی جائے۔

3) خود بہت سی مثالیں دینے کے بعد طلبہ سے بھی مثالیں بنوانا اور مختلف مثالیں بول کر طلبہ سے ان کے بارے میں سوال کرنا ضروری ہے۔ یہ کام زبانی بھی ہونا چاہیے اور تحریری بھی۔

4) اصطلاح یا قاعدے کی محض نظریاتی تفہیم کو ہرگز کافی نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کے عملی اجراء پر زیادہ زور دیا جائے۔ چنانچہ جب پچھلا سبق طلبہ سے سنا جائے تو اس میں صرف قاعدہ ہی نہ پوچھا جائے بلکہ مختلف مثالوں کے ذریعہ سوال کر کے اس بات کا اطمینان کیا جائے کہ طالب علم میں اس قاعدے کو عملی طور پر جاری کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟
مثلاً قاعدہ یہ ہے کہ غیر منصرف کا اعراب حالت جری میں فتحہ سے ہوتا ہے۔
اب صرف اس سوال پر اکتفا نہ کیا جائے کہ غیر منصرف کا اعراب کیا ہوتا ہے؟ بلکہ ایسے جملے اردو میں بول کر عربی میں ان کا ترجمہ کرایا جائے جن میں کوئی غیر منصرف لفظ حالت جری میں آیا ہو۔ یا ایسے عربی جملے بغیر حرکات کے تختہ سیاہ یا وائٹ بورڈ پر لکھے جائیں جن میں غیر منصرف لفظ حالت جری میں ہو اور ان پر حرکات لگوائی جائیں۔ یا ایسے غلط جملے طالب علم کو دیئے جائیں جن میں غیر منصرف کا اعراب صحیح نہ ہو اور پھر اس سے کہا جائے کہ وہ اسے صحیح کرے۔

5) طالب علم جب بھی کوئی غلط جملہ بولے یا غلط پڑھے، اسکو فوراً ٹوک کر جملہ درست کرایا جائے ، عام طور سے طلبہ میں “مضاف” پر “الف لام” داخل کرنے، موصوف صفت اور مبتدا ، خبر میں مطابقت نہ کرنے وغیرہ کی غلطیاں شروع سے جڑ پکڑ جاتی ہیں۔ ان غلطیوں کو کسی بھی قیمت پر گوارہ نہ کیا جائے بلکہ طالب علم سے اصلاح کرائی جائے تا کہ شروع ہی سے ان غلطیوں سے احتراز کی عادت پڑ جائے۔

6) جو قواعد کثیر الاستعمال ہیں ان پر قلیل الاستعمال قواعد کے مقابلے میں زیادہ زور دیا جائے سبق سننے کے وقت بھی اور امتحانات میں بھی کثیر الاستعمال قواعد کے بارے میں زیادہ سوالات کئے جائیں۔ بلکہ قلیل الاستعمال قواعد کے بارے میں بتایا بھی جائے کہ ان کا استعمال کم ہوتا ہے ، مثلاً :

“لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله”

کی پانچ ممکنہ وجوہِ اعراب میں طالب علم کو بتا دیا جائے کہ راجح اور کثیر الاستعمال کونسی ہے؟

7) “اسم متمکن” کی جو سولہ اقسام کتاب میں مذکورہ ہیں ، ان کو ذہن نشین اور یاد کرانے اور ان کے عملی اجراء پر بہت زور دیا جائے۔ مختلف الفاظ کے بارے میں طلبہ سے پوچھا جاتا رہے کہ یہ “اسم متمکن” کی کونسی قسم ہے؟ اور اس کا اعراب کیا ہے؟

8) طلبہ کو ہر روز یا کم از کم تیسرے دن کوئی نہ کوئی تحریری مشق ضرور دی جائے اور مشقوں کا طریقہ وضع کرنے کے لئے استاذ کے لئے ضروری ہے کہ وہ:
1. “عربی کا معلم”.
2. “معلم الانشاء”.
3. اور “النحو الواضح للابتدائیہ”
کو اپنے مطالعے میں رکھنے اور جو بحث پڑھائی گئی ہے اس کے متعلق ان کتابوں میں دی ہوئی مشقوں میں سے طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے ہوئے مشقیں منتخب کر کے طلبہ کو ان کے تحریری جواب کا پابند بنائے۔

9) “مِائةُ عامل ” کی تعلیم میں ہر “عامل” کے “عمل” کو ذہن نشین اور مستحضر کرانے کے لئے مثالوں سے کام لیا جائے اور ان کی بھی زبانی اور تحریری مشقیں کرائی جائیں۔

تہذیب و تسہیل: حافظ محمد بلال