سوال (2339)
ایک واقعہ سنا ہے کیا یہ حقیقت ہے کہ ایک آدمی کو پتا چلا کہ کسی علاقے میں امام احمد بن حنبل رہتے ہیں وہ آدمی ان سے ملاقات کرنا چاہتا تھا تو وہ آدمی مسجد میں گیا نماز پڑھی تو دیکھا ایک شخص مسجد میں لیٹا ہے اور انتظامیہ اس شخص کو باہر نکال رہی ہے کہ ہم نے مسجد بند کرنی ہے تو وہ آدمی اس شخص کو اپنے گھر لے جاتا ہے اور ان کو بستر دے کر خود آٹا گوندنے لگتا ہے اور ساتھ استغفار بھی کرتا ہے، تو وہ شخص پوچھتا ہے کہ آپ یہ استغفار کیوں کرتے ہو اس نے کہا استغفار کرنے سے میری ہر خواہش پوری ہوئی ہے، لیکن ایک خواہش پوری نہیں ہو رہی تو اس شخص نے پوچھا وہ کون سی خواہش ہے تو اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کسی علاقے میں امام احمد بن حنبل رہتے ہیں تو میں ان سے ملنا چاہتا ہوں تو اس شخص نے کہا تیری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی میں ہی امام احمد بن حنبل ہوں.
جواب
امام أحمد بن حنبل اور روٹی والے کا قصہ:
یہ واقعہ مجھے باسند صحیح یا معتبر سند سے کہیں نہیں ملا ہے اور جو ملا ہے اس میں استغفار والے عمل کا ذکر نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻮﻫﺎﺏ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻧﺎﺻﺮ اﻟﺤﺎﻓﻆ ﺃﺧﺒﺮﻩ ﻗﺎﻝ: ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﺤﺴﻴﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺠﺒﺎﺭ اﻟﺼﻴﺮﻓﻲ ﻗﺮاءﺓ ﻋﻠﻴﻪ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ اﻟﻘﺎﺿﻲ اﻹﻣﺎﻡ ﺃﺑﻲ ﻳﻌﻠﻰ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ اﻟﻔﺮاء ﻗﺎﻝ: ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻮ ﻣﺤﻤﺪ ﻫﻤﺎﻡ اﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ اﻷﻳﻠﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻗﺴﺎﻧﻴﺔ اﻟﺨﻄﻴﺐ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺑﻜﺮ اﻟﻮﺭاﻕ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻄﻴﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻗﺎﻝ: ﻟﻤﺎ اﻧﻄﻠﻖ ﺃﺑﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺤﻨﺔ ﺧﺸﻲ ﺃﻥ ﻳﺠﻲء ﺇﻟﻴﻪ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ، ﻓﺮﺣﻞ ﺃﺑﻲ ﺇﻟﻴﻪ- ﻳﻌﻨﻲ اﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ- ﻓﻠﻤﺎ ﺑﻠﻎ ﺃﺑﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﺮﻱ ﺩﺧﻞ ﺇﻟﻰ اﻝﻣﺴﺠﺪ ﻓﺠﺎءﻩ ﻣﻄﺮ ﻛﺄﻓﻮاﻩ اﻟﻘﺮﺏ، ﻓﻠﻤﺎ ﻛﺎﻥ اﻟﻌﺘﻤﺔ ﻗﺎﻟﻮا ﻟﻪ: ﺃﺧﺮﺝ ﻣﻦ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻓﺄﻧﺎ ﻧﺮﻳﺪ ﺃﻥ ﻧﻐﻠﻘﻪ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻬﻢ: ﻫﺬا ﻣﺴﺠﺪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ: ﺑﻌﺪ ﻛﺮﻯ اﻟﺼﻨﺎﻉ ﻣﺎ ﺃﻋﻄﻴﻨﺎﻫﻢ ﺃﻳﻤﺎ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻴﻚ ﺗﺨﺮﺝ ﺃﻭ ﻧﺠﺮ ﺑﺮﺟﻠﻚ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻘﻠﺖ: ﺳﻼﻣﺎ، ﻓﺨﺮﺟﺖ ﻣﻦ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭاﻟﻤﻄﺮ ﻭاﻟﺮﻋﺪ ﻭاﻟﺒﺮﻕ ﻓﻼ ﺃﺩﺭﻱ ﺃﻳﻦ ﺃﺿﻊ ﺭﺣﻠﻲ ﻭﻻ ﺃﻳﻦ ﺃﺗﻮﺟﻪ، ﻓﺈﺫا ﺭﺟﻞ ﻗﺪ ﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﺩاﺭﻩ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻳﺎ ﻫﺬا ﺇﻟﻰ ﺃﻳﻦ ﺗﻤﺮ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﻮﻗﺖ؟ ﻓﻘﻠﺖ: ﻻ ﺃﺩﺭﻱ ﺃﻳﻦ ﺃﻣﺮﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: اﺩﺧﻞ! ﻓﺄﺩﺧﻠﻨﻲ ﺩاﺭا ﻭﻧﺰﻉ ﺛﻴﺎﺑﻲ، ﻭﺃﻋﻄﻮﻧﻲ ﺛﻴﺎﺑﺎ ﺟﺎﻓﺔ ﻭﺗﻄﻬﺮﺕ ﻟﻠﺼﻼﺓ، ﻓﺪﺧﻠﺖ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ ﻓﻴﻪ ﻛﺎﻧﻮﻥ ﻓﺤﻢ ﻭﻛﺒﻮﺩ ﻭﻣﺎﺋﺪﺓ ﻣﻨﺼﻮﺑﺔ، ﻗﻴﻞ ﻟﻲ: ﻛﻞ! ﻓﺄﻛﻠﺖ ﻣﻌﻬﻢ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻣﻦ ﺃﻳﻦ ﺃﻧﺖ؟ ﻗﻠﺖ: ﺃﻧﺎ ﻣﻦ ﺑﻐﺪاﺩ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﺗﻌﺮﻑ ﺭﺟﻼ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ؟ ﻓﻘﻠﺖ: ﺃﻧﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ. ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻭﺃﻧﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳ
قلت( أي الطيبي ) ذكره ابن النجار في ذيل تاريخ بغداد :17/ 81 ،82 تحت ترجمة ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺧﻠﻒ اﻟﻔﺮاء، ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ اﺑﻦ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﺃﺑﻲ ﻳﻌﻠﻰ اﻟﻔﻘﻴﻪ اﻟﺤﻨﺒﻠﻲ ، وابن الجوزي في مناقب الإمام أحمد : 511 ،512
حافظ ذہبی نے اسے ایک اور طریق سے بمع حکم و نقد کے نقل کیا ہے: کہا:
ﺣﻜﺎﻳﺔ ﻣﻮﺿﻮﻋﺔ:
ﻟﻢ ﻳﺴﺘﺤﻲ اﺑﻦ اﻟﺠﻮﺯﻱ ﻣﻦ ﺇﻳﺮاﺩﻫﺎ، ﻓﻘﺎﻝ:
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﻧﺎﺻﺮ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ اﻟﻄﻴﻮﺭﻱ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻴﻦ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻫﻤﺎﻡ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻷﺑﻠﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺣﺴﻴﻦ اﻟﺨﻄﻴﺐ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﺑﻜﺮ اﻟﻮﺭاﻕ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻮ اﻟﻄﻴﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ، ﻗﺎﻝ:
لما ﺃﻃﻠﻖ ﺃﺑﻲ ﻣﻦ المحنة، ﺧﺸﻲ ﺃﻥ ﻳﺠﻲء ﺇﻟﻴﻪ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ، ﻓﺮﺣﻞ ﺇﻟﻴﻪ، فلما ﺑﻠﻎ اﻟﺮﻱ، ﺩﺧﻞ ﻣﺴﺠﺪا، ﻓﺠﺎء ﻣﻄﺮ ﻛﺄﻓﻮاﻩ اﻟﻘﺮﺏ، ﻓﻘﺎﻟﻮا ﻟﻪ: اﺧﺮﺝ ﻣﻦ المسجد ﻟﻨﻐﻠﻘﻪ.
ﻓﺄﺑﻰ، ﻓﻘﺎﻟﻮا: اﺧﺮﺝ، ﺃﻭ ﺗﺠﺮ ﺑﺮﺟﻠﻚ.
ﻓﻘﻠﺖ: ﺳﻼﻣﺎ.
ﻓﺨﺮﺟﺖ، ﻭالمطر ﻭاﻟﺮﻋﺪ، ﻭﻻ ﺃﺩﺭﻱ ﺃﻳﻦ ﺃﺿﻊ ﺭﺟﻠﻲ، ﻓﺈﺫا ﺭﺟﻞ ﻗﺪ ﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﺩاﺭﻩ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﻫﺬا، ﺃﻳﻦ ﺗﻤﺮ؟ﻓﻘﻠﺖ: ﻻ ﺃﺩﺭﻱ.ﻗﺎﻝ: ﻓﺄﺩﺧﻠﻨﻲ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ ﻓﻴﻪ ﻛﺎﻧﻮﻥ ﻓﺤﻢ ﻭﻟﺒﻮﺩ ﻭﻣﺎﺋﺪﺓ، ﻓﺄﻛﻠﺖ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﻦ ﺃﻧﺖ؟ﻗﻠﺖ: ﻣﻦ ﺑﻐﺪاﺩ.ﻗﺎﻝ: ﺗﻌﺮﻑ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ؟ﻓﻘﻠﺖ: ﺃﻧﺎ ﻫﻮ.ﻓﻘﺎﻝ: ﻭﺃﻧﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺭاﻫﻮﻳﻪ
[سير أعلام النبلاء :11/ 321 ،322]
اس طریق سے یہ متن بتا رہا ہے کہ جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا وہ کوئی خباز نہیں بلکہ خود امام اسحاق بن راھویہ تھے۔ سند میں الحسین بن بکر الوراق راوی کا مجھے ترجمہ نہیں ملا ہے۔ محمد بن جعفر أبو الطيب کے شیوخ میں عبد الله بن أحمد بن حنبل کا ذکر نہیں ملا، نہ ہی عبد الله بن أحمد کے تلامذہ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
اگر یہ ﺃﺑﻮ اﻟﻄﻴﺐ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺩﺭاﻥ اﻟﺒﻐﺪاﺩﻱ ﻏﻨﺪﺭ، ﻧﺰﻳﻞ ﻣﺼﺮ ہے تو اسے حافظ ذہبی نے اﻟﻤﺤﺪﺙ، اﻟﺰاﻫﺪ، اﻟﺼﻮﻓﻲ، اﻟﺠﻮاﻝ کہا ہے [سير أعلام النبلاء: 16/ 215]
اسی طرح قاضی ھمام بن محمد بن الحسن الأیلی کا ترجمہ نہیں معلوم ہو سکا۔ یوں یہ حکایت بعض مجھول السيرة لوگوں پر مشتمل ہے اور اسے ان جليل القدرائمہ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ ان نامعلوم لوگوں کا ترجمہ و توثیق کسی علم رجال کے ماہر فن شیخ صاحب کو ملے تو مجھے ضرور اطلاع دیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ