سوال (1061)
کیا شیخ البانی وغیرہ معاصر اہل علم پر اعتماد کا مطلب متقدم علمائے کرام کے احکام سے اعراض ہے؟
جواب
ہمارے دوستوں کا یہ جملہ بڑا جذباتی اور بظاہر بھلا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے متاخرین اور معاصرین کی وجہ سے ائمہ متقدمین کو چھوڑ دیا ہے، بلکہ کتب السنہ میں صاحب کتاب کے موقف کی بجائے ہم کسی متاخر یا معاصر کے حکم کو ترجیح دیتے ہیں!
حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں… یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ہم کسی فقہی مسئلے میں ائمہ اربعہ کے بعد متاخرین میں ابن تیمیہ و ابن قیم اور معاصرین میں ابن باز و ابن عثیمین کی ترجیح تلاش کر رہے ہوتے ہیں.. حالانکہ اس کا مقصد بالکل بھی متاخرین کو متقدمین پر ترجیح نہیں ہوتی، بلکہ علم و مطالعہ کی قلت کے سبب محتاج ہوتے ہیں کہ کسی متاخر یا معاصر پر اعتماد کر لیں، کیونکہ عین ممکن ہے ائمہ کا اختلاف ہو یا کوئی ایسا علمی نکتہ ہو، جو ہمارے علم میں نہ آ سکا ہو!
احادیث پر حکم کا بھی یہی مسئلہ ہے… متاخرین اور معاصرین پہلی تمام علمی روایات اور اقوال جرح و تعدیل اور طرق و شواہد کی بنا پر مختصر حکم ارشاد فرما دیتے ہیں جو ہمارے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔
جن اہل علم یا طلبہ نے یہ متقدمین و متاخرین والا قضیہ اٹھایا ہے، بعض دفعہ نمایاں طور پر نظر آرہا ہوتا ہے کہ انہیں بذات خود متقدم عالم دین کی بات ہی سمجھ نہیں آئی، جسے وہ کسی متاخر کے خلاف سمجھ رہے ہیں!
مثلا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ امام احمد کسی حدیث کو منکر یا اس پر نکارت کا حکم لگاتے ہیں ہے لیکن دیگر اہل علم اس کی شواہد کی بنا پر تحسین یا تصحیح کرتے ہیں، تو آپ دوست یہ کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ دیکھیں منکر کو حسن کہہ دیا… حالانکہ امام احمد کے نزدیک نکارت کے کئی ایک اطلاقات ہیں، جن میں سے ایک تفرد بھی ہے۔ تو کیا فرد روایت حسن نہیں ہو سکتی؟
اصولی بات یہ ہے کہ اہل علم متاخرین ہوں یا معاصرین، ان کی تحقیق کو سامنے رکھتے ہوئے، دلیل سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اس بنیاد پر مناہج کے متوازی ہونے کی بات کرنا، یہ درست رویہ نہیں! کیونکہ اگر کسی نے ہزاروں احادیث پر حکم لگایا ہے، تو اس میں چند فیصد احکام میں اگر اختلاف ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ متقدمین و متاخرین الگ الگ سمتوں کے مسافر تھے!
شیخ البانی کے بعد عالم عرب میں صرف ایسے محققین ہی پیدا نہیں ہوئے، جنہوں نے متقدمین و متاخرین کی تفریق کی بات کی ہے.. بلکہ اس کے بعد اس فکر پر ٹھیک ٹھاک ردود بھی آئے ہیں، ورجعت الأمور إلے نصابہا! انہیں بھی نظر میں رکھیں!
اس پر شیخ البانی کے شاگرد علی الحلبی رحمہ اللہ نے ایک مفصل کتاب کا ذکر کیا ہے:
((التَّبيین)) في ثُبوت وَحدة (المنهج النقدي) عند عُموم الأئمة المُحدثِّين ونقد مسالك المُفرِّقين بين منهج علمائنا المُتقدِّمين والمُتأخِّرين
جس کا پہلا حصہ ’طلیعۃ التبیین’ کے نام سے مطبوع اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہے.. جس کا خلاصہ اردو میں میں نے لکھا تھا! اس میں ان تمام شبہات اور جذباتی جملوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے، جو عموما اس ضمن میں بولے جاتے ہیں!
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ