سوال (4755)

سنا ہے امام بخاری نے چھ لاکھ احادیث مختلف مقامات پر جا جا کر مختلف لوگوں سے سن سن کر اکٹھی کی ہیں، پھر ان کے راویوں کو عدل اور دیانت کی کسوٹی پر پرکھا، پھر ان میں سے 7 ہزار کے لگ بھگ وہ احادیث اپنے مجموعہ میں شامل کیں جو ان کے معیار پر پوری اتریں۔
آپ سفر کے ٹائم کو بھی نظر انداز کردیں روایوں سے ملنے کے ٹائم کو بھی چھوڑیں، راویوں کی دیانت اور عدل کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے ٹائم کو بھی خاطر میں نہ لائیں، صرف اور صرف چھ لاکھ احادیث کو ان کی اسناد کے ساتھ لکھنے کے ٹائم کو لے لیں۔
اور فرض کرلیں کہ وہ دن رات کھائے پیئے سوئے اور قضائے حاجت کیلئے جائے بغیر اور نماز اور دیگر عبادات ادا کئے بغیر 24 گھنٹے ساری عمر حدیثیں لکھنے کا کام ہی کرتے رہے۔
اگر ایک حدیث سند کے ساتھ لکھنے میں انہوں نے دو گھنٹے بھی لگائے ہوں تو اس کے لئے 136 سال کا عرصہ درکار ہوگا جبکہ بخاری کی کل عمر پچاس یا ساٹھ سال تھی۔ اور اگر روزانہ اوسطا آٹھ گھنٹے حدیثیں لکھنے کا کام کیا ہو تو 408 سال لگتے ہیں۔
سفر کا ٹائم اور راویوں سے ملنے کا وقت اور راویوں کی دیانت اور عدل کو پرکھنے کا وقت بھی سامنے رکھا جائے تو اس کام کے لئے ہزاروں سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ہاں بخاری صاحب اگر صاحب کرامت ہوں تو یہ وہ سارا کام چند سال میں کر سکتے تھے۔
اگر حدیثوں کو جمع کرنے کے بارے میں ہمارا رویہ یہ ہے تو تاریخی واقعات بیان کرنے میں ہم نے کیا کیا گل کھلائے ہونگے۔ تاریخ کربلا کے بارے میں تو ہم ایسے جھوٹ ملاحظہ کر ہی رہے ہیں۔ جس قوم کی بنیاد ایسے جھوٹوں پر کھڑی ہو تو بھلا وہ زمانے میں کیسے پنپ سکتی ہے۔
اس تحریر کے حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

اس کا ایک مختصر جواب بھی ہو سکتا ہے، مطول جواب بھی ہو سکتا ہے، مختصر جواب یہ ہے کہ یہ الحادی نظریات ہیں جو انکار حدیث پر ختم ہوتے ہیں، یہ اس صاحب کا اپنا اعتراض نہیں ہے، بلکہ وہی منکرین حدیث کے چند اعتراضات ہیں جو پرویزی وغیرہ کرتے ہیں، ان کو دہرا دیا گیا ہے، اس کا جواب عقلی و علمی دونوں طرح دیا جا سکتا ہے، ہمارے ہاں جو صحیح البخاری کی تقریبات ہوتی ہیں، ان میں یہ بات جزوی و کلی طور پر مشائخ بیان کرتے ہیں، اس لیے یوٹیوب پر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کے کچھ صحیح البخاری کی تقریبات پر دروس ہیں، وہ سننا چاہیے، اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ اس صاحب کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ سات لاکھ احادیث سے کیا مراد ہے، سب سے پہلے یہ بات سمجھنی چاہیے، سات لاکھ احادیث سے مراد سات لاکھ متن نہیں ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ ایک ہی بات ہمارے ہاں چار پانچ طریقوں سے پہنچتی ہے، اس کو ہم کس طریقے سے چیک کرتے ہیں، جو ویلڈ طریقہ ہوتا ہے، اس کے ذریعے اس کو چیک کرتے ہیں، یہ ایک ہماری نارمل ایکسرسائز بھی ہے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

حدیث مبارکہ میں یہ بات موجود ہے کہ زمانہ سمٹ جائے گا، یوں کہہ لو کہ بے برکتی ہو جائے گی، سال مہینے کے برابر ہو جائے گیں، یعنی گیارہ مہینے آپ کو ملے ہی نہیں ہیں، آپ کو ملا ہی ایک مہینہ ہے، ایک مہینہ ایک ہفتہ کے برابر ہو جائے گا، تین ہفتے چلے جائیں گے، ہفتہ ایک دن کے برابر ہو جائے گا، چھ دن آپ کے ہاتھ سے چلے جائیں گے، اس سے آپ اندازہ کریں کہ ماضی کے لوگوں کو ایک سال حاصل تھا، اس کے عوض ہمیں ایک مہینہ حاصل ہے، اس طرح وقت کی برکت کو دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان لوگوں نے یہ کام کس طرح کرلیے ہیں، ہمارے ہاں مودودی صاحب کی طرح کیلکیولیٹر لے کر بیٹھ جاتے ہیں پھر حدیث ان کے سمجھ میں نہیں آتی، بس عقلی گھوڑے دوڑاتے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ