سوال (2337)

امام صاحب کا تکبیر تحریمہ اونچی آواز میں کہنا اور مقتدی کا آہستہ آواز میں تکبیر کہنا اس کی دلیل مطلوب ہے؟

جواب

امام کا تکبیر کو جہرا کہنا:

1: عن فليح، عن سعيد بن الحارث، قال: اشتكى أبو هريرة- أو غاب- فصلى بنا أبو سعيد الخدري” فجهر بالتكبير حين افتتح الصلاة، وحين ركع، وحين قال: سمع الله لمن حمده، وحين رفع رأسه من السجود، وحين سجد، وحين قام بين الركعتين حتى قضى صلاته على ذلك “، فلما صلى، قيل له: قد اختلف الناس على صلاتك، فخرج فقام عند المنبر، فقال: أيها الناس والله ما أبالي اختلفت صلاتكم أو لم تختلف، «هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي»
[مسند أحمد: ١١١٤٠، صحيح البخاري: ٨٢٥ ، صحيح ابن خزيمة: ٥٨٠، المستدرك علي الصحيحين للحاكم: ٨١٣ ، مسند أبي يعلي: ١٢٣٤ ، سنن الكبري للبيهقي: ٢٢٧٦]

2: عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: صَلَّيْتُ الظُّهْرَ بِالْبَطْحَاءِ خَلْفَ شَيْخٍ أَحْمَقَ، فَكَبَّرَثِنْتَيْنِ وَعِشْرِينَ تَكْبِيرَةً: يُكَبِّرُ إِذَا سَجَدَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ. قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ” تِلْكَ صَلاةُ أَبِي الْقَاسِمِ عَلَيْهِ الصَّلاةُ وَالسَّلامُ ”
[مسند أحمد: ١٨٨٦، صحيح البخاري: ٧٨٧]

مقتدی کا تکبیر کو سرا کہنا:

1: عن زيد بن أرقم رضي الله عنه: ” كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ يُكَلِّمُ الرَّجُلُ صَاحِبَهُ وَهُوَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ حَتَّى نَزَلَتْ {وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: 238] فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ، وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ “[صحيح مسلم: ٥٣٩ ، سنن الترمذي: ٤٠٥]

2: عن عائشة رضي الله عنها: وَقَعَدَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِلَى جَنْبِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ
[صحيح البخاري: ٧١٢]

فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ

الحمدللہ آپ کے سوال کا جواب ہوگیا ہے، اس طرح کے سوالات کا آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سلسلے میں ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مقلد کے لیے قول امام حجت ہے، اس پر عمل کرنا واجب ہے، امام صاحب تکبیر تحریمہ اونچی آواز سے کہے گا، مقتدی سرا کہیں گے جو اس طرح سوال کرے تو سب سے پہلے آپ اس سے پوچھیں کہ اس بارے میں امام صاحب کا کیا موقف ہے؟ ہر مسئلہ میں بس یہی پوچھیں کہ قول امام ابو حنیفہ پیش کریں، یہ بنیادی بات ہے، کراچی میں ایسے لوگوں سے اچھے طریقے سے گفتگو ہوئی ہے، بیس بیس سال ہوگئے ہیں، ان کی زبانیں آج تک بند ہیں، فتاوی ثنائیہ میں پانچ سطروں میں میلاد کا مسئلہ نمٹا دیا گیا ہے، غالبا شرف الدین دہلوی نے لکھا ہے کہ مقلد کو چاہیے کہ اپنا مسئلہ اپنے امام سے ثابت کردے، بات ختم ہو جائے گی، کیونکہ مقلد کو استنباط و استخراج کی اجازت نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ