سوال (5140)
نماز میں امام کی اقتداء افعال میں ضروری ہے یا اقوال میں بھی ضروری ہے شرعی راہنمائی فرمائیں؟
جواب
فرمانِ نبوى صلى الله عليه وسلم سے امام کی عظمت و مرتبت کا ثبوت ملتا ہے کہ احوالِ نماز میں اپنے امام کی پوری صداقت سے اتباع اور اقتداء کی جائے، تاکہ اسے اپنا مقتدیٰ اور متبوع بنانے کا مقصد پورا پورا حاصل ہو جائے۔
بنابریں یہ بات بھی مستحضر رہے کہ دوران نماز مقتدی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے امام سے کسی معاملہ میں سبقت یا برابری کرے، بلکہ ہر معاملہ میں اپنے امام کی اتباع کرے۔
لیکن یہ بات یاد رہے کہ امام کی اتباع نماز میں صرف ظاہری افعال پر موقوف ہے، جیسا کہ اس بات کی نشاندہی فرمانِ نبوى صلى الله عليه وسلم سے ملتی ہے، «اِذَا رَكَعَ» جب وہ رکوع کرے وغیرہ۔
دیکھئے! [فتح الباري: 178/2]
اس وضاحت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے رکوع، سجدہ، قیام اور قعدہ وغیرہ مراد ہے نہ کہ باطنی افعال، جیسا کہ تسبیحات وغیرہ
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
شیخ نے بہت اچھا جواب دیا، بارك الله فيكم و فيهم۔ البتہ یہ جو ظاہری افعال ہیں، ان میں بھی کچھ تخصیص و تحدید ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ امام صاحب کی ٹوپی گر گئی، تو مقتدی بھی ٹوپی گرا دیں۔ امام صاحب اگر سر کھجا رہے ہیں، تو مقتدی بھی سر کھجانے لگیں۔ یا جیسے امام صاحب اگر ہِل رہے ہیں، تو مقتدی بھی ہِلنا شروع کر دیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بعض جگہ کہا جاتا ہے کہ “جی امام صاحب رکوع کے بعد ہاتھ باندھتے ہیں، میں تو نہیں باندھتا، اب میں کیا کروں؟ پڑھوں یا نہ پڑھوں؟” یا “امام صاحب رفع یدین نہیں کرتے، میں کرتا ہوں، تو اب کیا کروں؟”
تو اس میں بھی کچھ حدود مقرر ہونی چاہییں، کہ ہر حرکت مراد نہیں ہوتی۔ بلکہ سجدہ ، رکوع ، قیام جیسی اصل عبادات میں جو متابعت ہے ، وہ مطلوب ہے ، ادھر ہر چھوٹی بات کو بنیاد نہ بنایا جائے کہ امام یہ کر رہا ہے، تو مقتدی بھی وہی کریں۔ فہم و تدبر ضروری ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ