سوال (5096)

کیا یہ واقعہ صحیح یا ضعیف ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کو جبری طلاق کے حوالے سے گدھے پر بیٹھا کر کالا رنگ کیا گیا تھا؟

جواب

امام مالک رحمة الله عليه کو جبری طلاق کے واقع نہ ہونے کے موقف پر وقت کے حاکم نے سخت سزا دی تھی۔
ملاحظہ فرمائیں:

أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ثنا أَبِي، ثنا حَرْمَلَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، قَالَ: ” كَانَ عَلَى أَهْلِ الْمَدِينَةِ الْهَاشِمِيُّ( هو جعفر بن سليمان بن علي)، فَأَرْسَلَ إِلَى مَالِكٍ، فَقَالَ: أَنْتَ الَّذِي تُفْتِي فِي الإِكْرَاةِ، وَإِبْطَالِ الْبَيْعَةِ؟! فَضَرَبَهُ مُجَرَّدًا مِائَةً، حَتَّى أَصَابَ كَتِفَهُ خَلْعٌ، وَكَانَ لا يَزُرُّ أَزْرَارَهُ بِيَدِهِ” قَالَ حَرْمَلَةُ: هُوَ جَدُّ جَعْفَرٍ الْقَاضِي. قَالَ حَرْمَلَةُ: قَالَ ابْنُ وَهْبٍ: مَكَثَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ حَتَّى مَاتَ، لا يَقْدِرُ أَنْ يَزُرَّ زِرَّهُ بِيَدِهِ الْيُسْرَى، مِنْ شِدَّةِ مَا مُدَّتْ، حَيْثُ ضُرِبَ،

امام شافعی رحمة الله عليه کہتے ہیں:کہ اہل مدینہ پر ہاشمی حکمران تھا اس نے امام مالک کو بھلا بھیجا اور کہا تم وہ ہو جو طلاق مکرہ کے واقع ہونے اور بیعت کے درست نہ ہونے کا فتویٰ دیتے ہو؟
پھر اس نے آپ رحمة الله عليه کی پیٹھ کر سو کوڑے لگوائے۔
حتی کہ اس مار کی شدت سے آپ کا کندھا اتر گیا اور ( حالت یہ ہو چکی تھی کہ) آپ خود اپنے ہاتھ سے اپنا آزار نہیں باندھ سکتے تھے۔۔۔ [آداب الشافعي لابن أبي حاتم الرازى:ص:156 سنده صحيح]

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺭاﺷﺪ، ﻗﺎﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﺎ ﺩاﻭﺩ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺿﺮﺏ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺃﻧﺲ ﻓﻲ ﻃﻼﻕ اﻟﻤﻜﺮﻩ ﻭﺣﻜﻰ ﻟﻲ ﺑﻌﺾ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﺃﻥ ﻣﺎﻟﻜﺎ ﻟﻤﺎ ﺿﺮﺏ ﺣﻠﻖ ﻭﺣﻤﻞ ﻋﻠﻰ ﺑﻌﻴﺮ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻪ: ﻧﺎﺩ ﻋﻠﻰ ﻧﻔﺴﻚ ﻗﺎﻝ: ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻻ ﻣﻦ ﻋﺮﻓﻨﻲ ﻓﻘﺪ ﻋﺮﻓﻨﻲ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻌﺮﻓﻨﻲ ﻓﺄﻧﺎ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﻦ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﺎﻣﺮ اﻷﺻﺒﺤﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻗﻮﻝ ﻃﻼﻕ اﻟﻤﻜﺮﻩ ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء ﻗﺎﻝ: ﻓﺒﻠﻎ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺃﻧﻪ ﻳﻨﺎﺩﻱ ﻋﻠﻰ ﻧﻔﺴﻪ ﺑﺬﻟﻚ، ﻓﻘﺎﻝ ﺃﺩﺭﻛﻮﻩ ﺃﻧﺰﻟﻮﻩ، [حلية الأولياء لأبي نعيم:6/ 316]

ﻭﺣﻜﻰ ﻟﻲ ﺑﻌﺾ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ، کون ہیں ثقہ ہیں یا مجھول وغیر معتمد معلوم نہیں
اس بارے جو واقعی صحیح سند سے ثابت ہے وہ پہلے ذکر کر دیا ہے البتہ خطباء کے ہاں معروف یہ دوسرا واقعہ ہے۔
مجھے اس واقعہ کی متصل سند نہیں مل سکی یا میں اس پر اطلاع نہیں پا سکا ہوں

رحمه الله تعالى رحمة واسعة ورضي عنه، هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

خروج کی بات تو غلط ہے، امام مالک رحمہ اللہ نے طلاق مکرہ کے حوالے سے حق بات کی تھی، اس پر حاکم وقت نے ان کو سزا دی تھی، درباری مولویوں نے ان کا ساتھ دیا تھا، نیچے یہ عبارات ملاحظہ ہو۔

قال صاحب الحلية حدثنا قال سمعت أبا داود يقول: ضرب جعفر بن سليمان مالك بن أنس في طلاق المكره، وحكى لي بعض أصحاب ابن وهب عن ابن وهب أن مالكا لما ضرب حلق وحمل على بعير فقيل له: ناد على نفسك. قال: فقال: ألا من عرفني فقد عرفني ومن لم يعرفني فأنا مالك بن أنس بن أبي عامر الأصبحي، وأنا أقول: طلاق المكره ليس بشي، قال: فبلغ جعفر بن سليمان أنه ينادي على نفسه بذلك، فقال: أدركوه أنزلوه… عن الفضل بن زياد القطان قال: سألت أحمد بن حنبل من ضرب مالك بن أنس؟ قال: ضربه بعض الولاة، لا أدري من هو؟ إنما ضربه في طلاق المكره كان لا يجيزه فضر به لذلك. انتهى.
وقال الذهبي في تاريخ الإسلام… وعن إسحاق الفروي، وغيره قال: ضرب مالك ونيل منه، وحمل مغشيا عليه. فعن مالك قال: ضربت فيما ضرب فيه سعيد بن المسيب،

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ