سوال (5383)

ایک مولانا صاحب جو کہ مسجد میں امامت کی مقرر شدہ تنخواہ لیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر مسجد کے لیے کوئی بندہ مالی تعاون دے تو میں اسے ذاتی استعمال میں لے آوں، انتظامیہ کو بتائے بغیر، تو یہ بالکل جائز ہے، کیونکہ میں مسجد کا امام ہوں، اس بات پر نمازیوں میں چہ میگوئیاں ہونا شروع ہوگئی ہیں، ازراہ کرم اس معاملے کی وضاحت فرمادیجیے؟

جواب

اگر امام صاحب کی معقول تنخواہ مقرر ہے اور دینے والا مسجد کے اخراجات کے لیے فنڈ دے رہا ہے نہ کہ امام صاحب کو تحفہ، تو پھر امام صاحب کے لیے وہ پیسے لینا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ امانت میں خیانت کی ہی ایک صورت ہے۔ امام صاحب کا یہ کہنا کہ میں مسجد کا امام ہوں لہذا میں مسجد کے فنڈز میں تصرف کا حق رکھتا ہوں یہ درست نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ذمہ داری انتظامیہ کی ہوتی ہے، اگر امام مسجد خود ہی انتظامیہ ہے، تو پھر اسے یہ اختیار ہو گا، لیکن ایسا منتظم جو امام ہو یا غیر امام، وہ اللہ کے ہاں تو جوابدہ ہو گا کہ وہ صدقات و خیرات کو ان کے درست مصارف میں صرف کیا کرتا تھا یا نہیں!
البتہ بعض دفعہ لوگ ائمہ کرام کو اپنی طرف سے ہدیہ اور تحفہ بھی دیتے ہیں، جو کہ دینا مستحب اور لینا جائز ہے، چاہے امام کی تنخواہ مقرر ہو یا نہ ہو۔واللہ اعلم

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ