سوال (4306)
کیا مسجد کے امام کو مزدور کہنا جائز ہے؟
جواب
یاد رکھیں یہ کوئی مستحسن اور پسندیدہ لفظ نہیں ہے، اگر کوئی باصلاحیت عالم دین اور قاری ہے، صاحب علم و فضل ہے تو اس کو مزدور نہیں کہنا چاہیے، اگر کسی نے عامل کو مزدور کہہ دیا ہے تو کوئی سختی نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
معاذ الله: اسے کہتے ہیں دین اسلام سے بیزار لوگ بے قدر لوگ علم وحی کے، درحقیقت ثقہ ائمہ و علماء کرام کی عزت وتکریم نہ کرنا قرآن وحدیث کی عزت وتکریم نہ کرنا ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی وجہ سے تو وہ ائمہ و علماء قرار پائے ہیں، انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد اس امت کے حقیقی خیر خواہ اور راہنما و داعی صرف یہ ثقہ علماء کرام ہی تو ہیں جنہیں مزدور کہنے کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے، آج اکثر لوگ اپنے ائمہ و علماء کرام کے ساتھ ایک مزدور سے بھی کم تر سلوک کرتے ہیں جو صریح ظلم و سرکشی ہے اور لوگوں دین سے بیزار ہو رہے۔ علما کرام کی قدر درحقیقت وحی الہی و قرآن وحدیث کی قدر ہے۔ اور علماء کی بے قدری درحقیقت قرآن و حدیث کی بے قدری ہے۔ ایسے لوگ اگر یہی روش رکھیں گے تو یہ کیسے فلاح پائیں گے جو امت مسلمہ کے سب سے زیادہ خیر خواہ اور مخلص طبقہ کے ساتھ ایسا ظالمانہ اور غیر اخلاقانہ سلوک کرتے ہیں۔
اس لئے سوال کرنے والے کو الله تعالى سے ڈرنا چاہیے کہ جسے وہ مزدور کہنے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں وہ کوئی عام شخص نہیں ہے وہ تو وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے بارے رب العالمین فرماتے ہیں:
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ [سورہ فاطر : 28]
الله سے تو اس کے بندوں میں سے صرف علم والے ہی ڈرتے ہیں۔
اس کی تفسیر میں سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
ﻗﺎﻝ: اﻟﻌﻠﻤﺎء ﺑﺎﻟﻠﻪ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﺨﺎﻓﻮﻧﻪ [الزهد لأبي داود : 348]
تو جو علماء حق تقوی کو لازم پکڑتے ہیں وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ [المجادلہ : 11]
الله ان لوگوں کو درجوں میں بلند کریں گے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا۔
اس کی تفسیر یوں بیان ہوئی ہے:
ﻗﺎﻝ: ﻳﺮﻓﻊ اﻟﻠﻪ اﻟﺬﻳﻦ ﺃﻭﺗﻮا اﻟﻌﻠﻢ ﻣﻦ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻠﻰاﻟﺬﻳﻦ ﻟﻢ ﻳﺆﺗﻮا اﻟﻌﻠﻢ ﺩﺭﺟﺎﺕ
[المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقى: 341]
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا [صحیح مسلم : 817]
یعنی الله تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھیں علم دیا، ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے گا، (وہ جس قدر ایمان اور علم میں زیادہ ہوں گے اتنے ہی درجوں میں بلند ہوں گے۔ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔)
باعمل مخلص و موحد قاری و حافظ وعالم کی آخرت میں شان وعظمت کیا ہو گی؟ کہا جائے گا:
يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَ رَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا
قرآن کریم کے ماہرین سے کہا جائے گا پڑھ اور چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا، تیرا مقام آخری آیت کے پاس ہے جسے تو پڑھے گا
[سنن ابوداود: 1464، سنن ترمذی: 2914، مسند أحمد بن حنبل: 6799 حسن لذاته]
ان چند ایک تصریحات کے علاوہ بہت سی تصریحات قرآن وحدیث میں موجود ہیں جو ایک ثقہ،صحیح العقیدہ عالم وقاری صاحب کی شان وعظمت پر دلالت کرتی ہیں
سائل خوب غور کرے کہ کیا اس کا سوال درست ہے کیا آج کے لوگوں کا رویہ وکردار اپنے ائمہ وعلماء کرام کے ساتھ درست ہے یا غلط ہے؟
رب العالمین ہمیں صحیح معنوں میں علماء حق، ائمہ مساجد کی عزت وتکریم کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائیں
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ