سوال
پاکستان میں آنلائن میڈیکل بلنگ (medical billing) کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ ایک onlineکام ہوتا ہے جو ڈاکٹر (بلنگ کی اصطلاح میں ہیلتھ کئیرپرووائیڈر – HealthCare provider) کی ایما پر انشورنس کمپنیوں کو انشورنس فارم (یعنی HCFA فارم) جمع کروا کر جس شخص کی انشورنس ہو چکی ہے اس کے علاج معالجے کے واجب الادا پیسے انشورنس کمپنیوں سے وصول کرنے پر مشتمل ہوتا ہے۔
مزید تفصیلات:
پاکستان میں بلنگ کمپنی (Medical Billing Company) میں بیٹھ کر ایک شخص جسے بلر (Biller) کہتے ہیں وہ امریکی ڈاکٹر کی ایما پر انشورنس فارم (جسے HCFA فارم کہا جاتا ہے) کو پُر کر کے انشورنس کمپنیوں کو بھیجتا ہے پھر اس کے بعد اس فارم کی پیروی بھی کرتا ہے۔ اس انشورنس فارم میں: مریض کی معلومات یعنی نام، پتا، تاریخ پیدائش، انشورنس کمپنی جس کے
ساتھ وہ منسلک ہے کا نام، مریض کا بنک اکاؤنٹ نمبر اور ڈاکٹر نے تشخیص کے بعد جو امراض و علامات درج کی ہیں اور ڈاکٹر نے تشخیص کے لیے جو طریقے اور ٹیسٹ کیے ہیں اور مجموعی رقم جو انشورنس کمپنیوں سے وصول کرنی ہوتی ہے سب اس فارم میں درج ہوتا ہے۔ (HCFA فارم اس خط کے ساتھ نتھی بھی کر دیا ہے جسے آپ مکمل تحقیق سے دیکھ سکتے ہیں)۔
انشورنس فارم ( HCFAفارم) جمع کروانے کے بعد انشورنس کمپنی اس فارم کی پڑتال کرتی ہے جس کے بعد یا تو متعلقہ انشورنس کمپنی والے اُس فرد (یعنی مریض) کو واجب الادا کو قیمت ادا کر دیتی ہے یا اس فارم کو مسترد کر دیتی ہے۔ فارم کامیابی کے ساتھ چیک و قیمت ادا ہو جانے کی صورت میں اسے متعلقہ مریض کے اشاریہ (فہرست) میں اندراج کر دیتے ہیں تاکہ حساب کتاب لکھا ہوا موجود رہے۔ اس اندراج والی فہرست کو ( ARیعنی اکاؤنٹ رسیوو ایبل Account Receivable – کو کہتے ہیں۔ یہ AR (پاکستان میں بیٹھا بلر biller) اپنے پاس لکھتا اور محفوظ کر لیتا ہے تاکہ اسے امریکی ڈاکٹر کو دِکھا کر اس سےپاکستانی کمپنی اپنا معاوضہ وصول کر سکے۔
مسترد فارم کی پیروی (یعنی FollwUp) میں: پاکستان میں بیٹھا شخص (بلر) اس فارم کو دوبارہ درست کرتا ہے۔ اور اس اثنا میں وہ امریکی انشورنس کمپنی کو فون کر کے رابطہ کرتا ہے اور استفسار کرتا ہے کہ فارم کیوں مسترد ہوا۔ انشورنس کمپنی کے فارم کو مسترد کرنے کی وجہ کو نوٹ کر کے دوبارہ HCFA فارم تیار کرتا ہے یا اسی فارم میں ترمیم کرتا ہے اور پھر اسے تیار کر کے انشورنس کمپنی
کو بھیجتا ہے تاکہ کمپنی سے مریض واجب الادا پیسے وصول کیے جا سکیں۔
فارم کے کیش ہو جانے کے بعد جو AR Reportتیار ہوتی ہے (جس کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے)۔ وہ AR Report امریکی ڈاکٹر کو بھیجی جاتی ہیں جس پاکستانی کمپنی پر ڈاکٹر سے معاوضہ (تنخواہ) لیا جاتا ہے۔ بلنگ کمپنی امریکی ڈاکٹر سے پیسے وصول کرتی ہے اور اس کمپنی
کے ملازمین یعنی بلر اور کریڈنشلر (Biller and Credentialer) اور دیگرتمام پاکستانی بلنگ کمپنی سے اپنی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
اس کام میں امریکی پرائیویٹ انشورنس کمپنیاں بھی ہوتی ہیں اور سرکاری انشورنس کمپنیاں بھی ہوتی ہیں۔ امریکی ڈاکٹر یہ کام میڈیکل بلنگ کمپنیوں کے حوالے اس لیے کرتے ہیں کیوں کہ وہ مصروف ہوتے ہیں اور وقت بچانے کے لیے وہ یہ کام دوسری نجی کمپنیوں کو دے دیتے ہیں۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بلر اس میں اپنا حقیقی نام استعمال نہیں کرتے بلکہ کوئی انگریزی نام استعمال کرتے ہیں۔
اب سائل جاننا چاہتا ہے کہ کیا یہ کام جائز ہے یا ناجائز ہے۔ کیا یہ کام حرام تو نہیں ہے اور کیا کسی شخص کو زریعہ روزگار کے لیے یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں؟
ناصر اقبال- ضلع راولپنڈی
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
انشورنس کا موجودہ نظام (چاہے وہ پرائیویٹ ہو یا گورنمنٹ کے تحت) شرعی اصولوں کے اعتبار سے ناجائز ہے، کیونکہ اس کی بنیاد غرر، جوا اور سود جیسے حرام امور پر ہے۔
پالیسی ہولڈر ساری زندگی قسطیں دیتا رہتا ہے، اگر حادثہ نہ ہو تو کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور اگر حادثہ ہو جائے تو انشورنس کمپنی اس کا نقصان بھرتی ہے۔ گویا یہ معاملہ سراسر جوا ہے۔
اسی طرح کمپنی جس سرمایہ کو روکے رکھتی ہے، وہ سودی کاروبار میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس بنیاد پر انشورنس کمپنیوں کا کام اور نظام ہی شرعاً باطل اور ناجائز ہے، و انکے ساتھ بطور ورکر یا ایجنٹ کام کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ لہٰذا ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا کام کرنا، خواہ وہ ایجنٹ بن کر ہو یا کسی اور طرح سے، سب گناہ میں تعاون ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ”. [المائدہ: 02]
’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون نہ کرو‘‘۔
اس میڈیکل بلنگ کے کام میں اگرچہ ظاہری طور پر ایک ڈاکٹر اور مریض کے درمیان تعاون ہو رہا ہے، لیکن عملاً یہ کام انشورنس کمپنی کو سہولت فراہم کرنے اور ایک باطل نظام کو مضبوط کرنے پر مشتمل ہے۔ انشورنس کروانے والے مریض کو انشورنس کمپنی سے پیسے دلوانا گویا اسی باطل نظام کو چلانے میں تعاون اور آگے بڑھانے کا سبب بنے گا۔
لہٰذا اس قسم کی ملازمت اختیار کرنا، اور اس کے ذریعے روزی کمانا شرعاً درست نہیں ہے۔
اس میں شریک ہونا گناہ کے کام میں معاونت ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔
اگر کسی شخص کو روزگار کی تلاش ہو، تو اسے حلال ذریعۂ معاش کی طرف جانا چاہیے، خواہ ابتدا میں آمدن کم ہو، اللہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
“وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لَا يَحتَسِبُ”. [ الطلاق: 2-3]
’’جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ پیدا کر دیتا ہے، اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو‘‘۔
آخر میں جو یہ کہا گیا کہ اس میں اپنا حقیقی نام استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ کوئی انگریزی نام ہوتا ہے، آن لائن کاموں میں دھوکہ کی یہ صورت بھی آج کل عام ہے، کہ فرضی نام رکھ کر، فرضی لوکیشنز شو کروا کر اور فرضی کمپنیاں دکھا کر کال سنٹر، سافٹ ویئر ہاؤسز، آئی ٹی کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں، یہ سب کام کرنا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ یہ دھوکہ دہی، جھوٹ و فراڈ اور غلط بیانی جیسی کئی ایک قباحتوں پر مشتمل ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ