سوال (386)

انشورنس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

موجودہ انشورنس تکافل یا کفالہ کے نام سے ہو، یہ سب سود کی اقسام ہیں، نام بدل دیے گئے ہیں، فلحال جو انشورنس ہے وہ قمار اور سود پر مبنی ہے۔ ہماری نشستیں ان سے ہوئی ہیں لیکن وہ جواب نہیں دے سکے ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: انشورنس کے متلعق رہنمائی فرمائیں۔

جواب: موجودہ جو انشورنس ہے، بیمہ پالیسی ہے، سٹیٹ لائف کے معاملات ہیں، تکافل ہے ہماری تحقیق میں اس میں کمار ہے، جوا ہے، سٹہ ہے، ربا ہے، لاٹری کی طرح اس میں جوا کھیلا جاتا ہے، غرر ہے، اس میں دھوکہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لاکھ لوگ دعویٰ کریں، لیکن حقیقت یہی ہے۔ اس پر ہمارے بعض علماء نے کچھ کام کیا ہوا ہے، اس کو دیکھا جا سکتا ہے، حافظ ذوالفقار علی طاہر جامعہ ابی ھریرہ لاہور شریعہ اکیڈمی جامعہ ابی ھریرہ شریعہ اکیڈمی لاہو  ان کے کچھ کتابچے ہیں اس پر وہ دیکھیں۔”

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: امریکا میں کوئی بھی کار یا گھر لینے کیلئے اس کی انشورنس کروانا لازمی ہوتا ہے ورنہ آپ کوئی بھی کار یا گھر نہیں لے سکتے، تو ایسی صورت میں اگر کسی کو انشورنس کی جاب ملے تو کیا اسکے لئیے وہ جاب کرنا جائز ہوگی؟ اگر قدرے تفصیلی جواب مل جائے تو مہربانی ہوگی، رہنمائی فرمائیں۔

جواب: اب تک کا جو حاصل مطالعہ ہے، دنیا بھر میں جتنے بھی انشورنس اور بیمہ پالیسیاں چل رہی ہیں، تکافل چل رہا ہے، اس میں ربا بھی ہے، غرر بھی ہے، قمار بھی ہے، جوا اور سٹا، یہ ساری قباحتیں اس کے اندر موجود ہیں۔ لاکھ لوگ دعویٰ کریں، لیکن حقیقت اسی طرح ہے۔

تو لہٰذا اس کی حلت، حلال ہونے کا، جائز ہونے کا فتویٰ تو نہیں دیا جا سکتا، الا یہ کہ جو بڑے کاروباری حضرات ہوتے ہیں، ان کے جو کنٹینر ہوتے ہیں وہ بغیر انشورینس کیے نہ وہ منگوا سکتے ہیں، نہ بھیجوا سکتے ہیں۔ یہ قانونی معاملہ ہو گیا، جیسے تصویر کا معاملہ، یہاں بھی چاہیے اور وہاں بھی چاہیے، ٹھیک ہے ن۔

تو تصویر کا حکم واضح ہے، لاکھ تاویلات کی جائیں، لیکن سب کو پتا ہے کہ اس کا حکم حرمت کا ہے۔ تو وہ پھر گورنمنٹ کے کھاتے میں جائے گا، حاکم وقت کے کھاتے میں جائے گا معاملہ۔ اگر کوئی ایسی ضروری چیز جو لاگو کر دی جاتی ہے قانونی طور پر، مگر اس کا مطلب اب یہ نہیں ہوگا کہ چلو جی جب یہ گنجائش نکال دی، تو پھر اس طرح اس کی نوکریوں کی گنجائش بھی نکال دی۔

یہ ایسی ہے جیسے کہ تصویر، آپ نے بامرِ مجبوری، حاکم وقت سے قانون کے تحت بنوائی اور لگوائی۔ اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوٹو شاپ کھول کے بیٹھ جائیں، فوٹو اسٹوڈیو کھول کے بیٹھ جائیں، یہ مطلب تو نہیں ہے ، ہرگز بھی نہیں۔

تو بالکل اسی طرح انشورنس کا معاملہ ہے۔ بامرِ مجبوری، جہاں رہتے ہیں اس کی وجہ سے کروا لینا اور چیز ہے، اور اس کی نوکری کو پیشے کے طور پر اختیار کر لینا اور چیز ہے۔

اور پھر یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ ہر بندہ گاڑی رکھے، تو ہر بندہ اپنے گھر میں رہے. دنیا کرائے پر رہتی ہے، یہاں بھی رہتی، وہاں بھی رہتی، شوق سے۔ تو یہ بھی ایک گنجائشیں نکالنے والی بات ہوتی ہے۔

تو یہ ہے کہ آخرت کو اگر سامنے رکھا جائے، تو پھر دنیا کے معاملات بڑے ہیچ ہو جاتے ہیں۔ آرام سے دنیا گزر جاتی ہے الحمدللہ۔ کیونکہ کومن سی بات ہے، سب کے اپنے گھر تو نہیں ہیں، سب کی اپنی گاڑیاں تو نہیں ہیں۔ وجہ وہی ہو گی، ظاہر سی بات ہے، وہ بچے ہوں گے، ہمیں بچنا چاہیے۔ یہ بات ہے۔

اور پھر اس میں مزید ایک چیز ایڈ کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے ممالک میں، جو دار الکفر ہیں، وہاں رہنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، اس کو بھی دیکھنا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: انشورنس کروانا کیسا ہے، اسلامی یا کنوینشل بینک سے؟ کسی عالم کا اس پر کوئی وڈیو بیان ہو تو اس طرف بھی رہنمائی فرمادیں۔

جواب: انشورنس کئی وجوہات کی بنا پر حرام ہے، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کی وفات کی شکل میں آپ کیا انشورنس کس کو دی جائے، وہ آپ نے ایک وارث کا نام لینا ہوتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وارث کے لیے کوئی وصیت کوئی نہیں ہے، پہلے مرحلے میں حدیث کی مخالف دی جاتی ہے، اس میں جوا اور سود ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ