2005ء میں جامعہ رحمانیہ لاہور کا نصف تعلیمی سال گزر چکا تھا۔ میں تحصیل علوم اسلامیہ کے لیے وہاں زیرتعلیم تھا۔ غالبا مئی کا مہینہ تھا۔ انتظامیہ کی جانب سے ردوبدل کے ساتھ ایک نیاتعلیمی شیڈول جاری کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ آئندہ ہفتے میں دو دن ایک شخصیت جرح وتعدیل پر لیکچر دے گی۔ اس خبر کا ملناتھا کہ ہرطالب علم فرحت و انبساط سے جھوم اْٹھا۔ جامعہ میں ایک نیا ولولہ اور غیرمعمولی جوش و جذبہ تھا۔ تمام طلباء اس خبر دلنواز پر اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے گویا انہیں ان کی دولت گم شدہ مل گئی ہو اور ان کی دیرینہ مراد برآئی ہو۔ طویل انتظار کے بعد ہردلعزیز اس شخصیت کی آمد کا وقت ہوا۔ کلاس کے طلباء کی بے قراری کا یہ عالم تھا کہ ہرکوئی کلاس روم سے نکل کر اس خوش پوش مہمان کی ایک جھلک دیکھنے میں سبقت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چند لمحات بعد کچھ احباب کے حصار میں ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پر اپنے فرائض کی ادائیگی کی چاہت لیے ایک شخصیت ہمارے کلاس روم میں وارد ہوئی۔ انہوں نے لیکچر کا آغاز کیا تو تمام طلباء ایک حریص انسان کی طرح مکمل استغراق اور انہماک کے ساتھ ان کی گفتگو میں محو ہوگئے۔
حاضر خدمت ہے اس جامع حیثیات شخصیت کا تعارف جس نے ظلمت و گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکتے گھرانے میں پرورش پائی۔ جو عنفوان شباب میں صراط مستقیم سے بہرہ ور ہوا اور مسلک سلف کا پاسبان بن گیا۔ جس کی علم سے محبت اور حصول علم کا شوق اسے کشاں کشاں لیے پھرا اور اس کی خوش قسمتی کہ اسے ایسے رہبر اساتذہ ملے جنہوں نے اس کی فطری صلاحیتوں کو تراش خراش کر اسے تابناک ہیرا بنا دیا۔ جس کے حصول علم کی غرض وغایت جلب منفعت نہ تھی بلکہ قرآن و سنت کی اشاعت اور روز بروز اٹھتے گمراہ کن نظریات کا سدباب تھا۔ جو خداداد ذھانت وفراست کا مالک ہونے کے سبب بہت جلد علمی منزلیں طے کرتے ہوئے مفتی جماعت کے منصب پر فروکش ہوگیا۔ جو اپنی حق پسندی اور حق گوئی کی بدولت علمی فضیلت کے ساتھ ساتھ دنیاوی عزت و شہرت سے مالا مال ہوگیا۔ جس کو نوعمری میں ہی جماعت کے اکابر نے ان کی غیر معمولی قوت فہم، وسعت نظر، محققانہ طرز تحریر اور مشاہدے میں وسعت کا کما حقہ اندازہ کرتے ہوئے اس کی قدر افزائی کرتے ہوئے اسے اپنا ندیم خاص بنالیا۔ جس نے اپنی تمام زندگی تصنیف وتالیف، درس وتدریس اور تذکیر و تبلیغ کے لیے وقف کرتے ہوئے متنوع مسائل پر دل افزا معلومات اور گرانمایہ اطلاعات بہم پہنچائیں۔ جس کے تحقیقی کام کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نووارد محققین و مولفین اس کی تصانیف و تالیفات سے بھر پور استفادہ کرتے ہیں۔ جس نے درجنوں کتب تصنیف و تالیف کیں اور انہوں نے شہرت عام اور بقائے دوام کا درجہ حاصل کیا۔ جو اپنے موقف کو دلائل وبراہین سے مزین کرکے حددرجہ شگفتہ، شستہ اور سادہ اسلوب کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ جو مسلک کی روایات پر حملہ آور ہونے والوں کا پورے شرح و بسط کے ساتھ قلع قمع کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ جو بیک وقت خطیب بھی ہے اور محرربھی، مدرس بھی ہے اور فن مناظرہ میں بھی یدطولیٰ رکھتا ہے۔
خلیق و شفیق، خوش وضع و خوش لباس، خوش فہم وخوش اندام، وجیہ شکل وصورت، بذلہ گفتار اور محال اندیش!
جی ہاں! یہ ہیں ہمارے سلسلہ تعارف علماء میں آج کے مہمان مناظر اسلام حضرت مولانا مفتی مبشراحمدربانی حفظہ اللہ راہنما مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان۔
آپ یکم اکتوبر 1968 ء کو ھیلاں تحصیل پھالیاں ضلع منڈی بہاء الدین میں پیدا ہوئے۔ چار بھائیوں اور چھ بہنوں میں آپ سب سے بڑے ہیں۔ والد کانام محمدبشیر اور دادا رحمت الٰہی تھے۔ دادا اور پرداد ا پیروں فقیروں کوماننے والے تھے یعنی بریلوی مسلک کے پیروکار تھے۔ پھر ایک دیوبندی عالم ابواحمد دلپذیر جن کا تعلق بالا کوٹ سے تھا بطور عربی ٹیچر آپ کے گاؤں میں آئے۔ وہ بہت سلجھے مزاج کے حامل اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ وہ سکول میں اسمبلی کے دوران قرآن مجید کی دو تین آیات کاترجمہ اور تفسیر بیان کرتے تھے۔ وہ گاؤں کی مسجد میں خطیب اور امام بھی تھے۔ صبح کے وقت درس میں ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے تھے۔ رات کو عشاء کے بعد حدیث کا درس بھی دیتے تھے۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں آپ کے بزرگوں کو عقیدہ توحید سمجھ آیا جس کی وجہ سے شرک اور بدعت سے کنارہ کر لیا اور دیوبندی مسلک قبول کرلیا۔
جب آپ آٹھویں کلاس میں ہوئے تو اپنے اس عربی ٹیچر سے ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ اسی اثناء میں کتاب الصرف، کتاب النحو اور پھر قدوری ان سے پڑھی۔ ایک دن آپ مسجد کی صفائی کررہے تھے ایک الماری میں کتابوں کے ساتھ بلوغ المرام پڑھی دیکھی۔ آپ نے استاد جی سے استفسار کیا کہ یہ کون سی کتاب ہے؟ کہنے لگے یہ حدیث کی کتاب ہے۔ آپ نے عرض کیا کہ آپ یہ بھی مجھے پڑھا دیں۔ انہوں نے پڑھانا شروع کردی جس سے آپ کے اندر تبدیلی رونما ہونا شروع ہوگئی۔
ایک دن آپ منڈی بہاء الدین گئے وہاں صوفی احمد دین حنیف جو بڑے جید عالم تھے۔ وہ وہاں کی توحید گنج مسجد میں خطیب تھے۔ اس زمانے میں وہ چھوٹی مسجد تھی اب اس کے طول و ارض میں بہت وسعت آگئی ہے۔ آپ نے ان کی اقتداء میں جمعہ پڑھا۔ صوفی صاحب کی خوبی تھی کہ جو نیا بندہ جمعہ پڑھنے آتا اس پر نظر رکھتے اور جمعہ کے بعد اس سے بات چیت کرتے اس کا حال احوال دریافت کرتے۔ آپ جمعہ سے فارغ ہوکر جانے لگے تو صوفی صاحب نے آواز دے کر آپ کو بلا لیا۔ پوچھا کہاں سے آئے ہیں؟ عرض کیا ھیلاں سے آیا ہوں۔ کہنے لگے جو مولوی دلپذیر کا گاؤں ہے۔ صوفی صاحب کی مسجد سے متصل ہی کتابوں کی دوکان تھی۔ آپ کو اپنے ساتھ دوکان میں لے گیے۔ انہوں بہت ساری کتابیں نکالیں جن میں بلوغ المرام اور رفع الیدین کے موضوع پر کتب شامل تھیں۔ آپ نے عرض کیا کہ میں تو جمعہ پڑھنے آیا ہوں میرے پاس کتابیں خریدنے کے لیے اتنے پیسے نہیں ہیں۔صوفی صاحب کہنے لگے بیٹا میں نے آپ سے پیسے مانگے ہیں؟ میں یہ کتب آپ کو بطور تحفہ دے رہا ہوں۔ آپ نے ان کو خود بھی پڑھنا ہے اور گاؤں والوں کو بھی پڑھانی ہیں۔آپ نے صوفی صاحب کو بتایا کہ ہمارے دیوبندی استاد رات کو حدیث کا درس دیتے ہیں۔ صوفی صاحب نے فرمایا کہ دھیان رکھنا جب رفع الیدین کی حدیثیں آئیں گی وہ ان کو نظر انداز کردیں گے۔ اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
1984 ء میں آپ نے میٹرک پاس کیا جس میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ پہلی سے دسویں تک ہرسال آپ پہلی پوزیشن حاصل کرتے رہے۔ میٹرک کے بعد آپ کی خواہش تھی کہ دینی تعلیم حاصل کی جائے۔ آپ کے ننہیال اور والد کی خواہش تھی کہ ہمارے خاندان میں انجینئر نہیں آپ کے نمبر اچھے ہیں لہذا انجینئر بننا چاہیے۔ والد نے آپ کی سند لی اور سیالکوٹ ٹیکنیکل کالج میں داخلے کے لیے اپلائی کردیا۔ والد کے اصرار پر بادل نخواستہ آپ کالج چلے گیے۔ آپ کے ساتھ گاؤں سے ایک لڑکا جس کا نام مرزا عابد تھا وہ بھی کالج میں پڑھنے گیا۔ آپ صبح گاؤں سے نکلتے کالج پہنچتے حاضری لگاتے اور چلے جاتے۔ سارا دن سالکوٹ شہر گھومتے رہتے مختلف مساجد اور مساجد کا چکر لگاتے۔ اس لڑکے نے ایک دن آپ کے والد کو شکایت لگادی کہ یہ پڑھتا نہیں حاضری لگا کر نکل جاتا ہے۔ والد نے پوچھا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟
عرض کیا کہ میں مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ والد نے آپ کے دیوبندی استاد سے بات کی تو انہوں نے کہا میں اس کو کسی مدرسے میں بھیجتا ہوں۔
گوجرانوالہ میں باغبانپورہ میں مدرسہ اشرف العلوم ہے۔ اس مدرسے میں مولانا محمودالحسن بالا کوٹی ہوتے تھے۔ کچھ دن آپ نے وہاں پڑھا لیکن ان کے پڑھانے کاانداز پسند نہ آیا۔ وہ آپ پر گہری نظر رکھتے تھے کیونکہ ان کو کہاگیا تھا کہ یہ لڑکا ادھر ادھر نہ چلا جائے۔ ایک دن عصر کے بعد آپ موقعہ پا کر نکل گیے۔ چلتے چلتے گرجاکھ کی ایک مسجد میں پہنچ گیے۔ مولانا خالد گرجاکھی اس مسجد میں بیٹھے تھے۔ ان کو سلام عرض کیا اور پاس بیٹھ گئے۔ پوچھا بیٹا کہاں سے آئے ہیں؟ بتایا کہ میں اشرف العلوم مدرسے میں پڑھتا ہوں مجھے ان کی پڑھائی پسند نہیں آئی۔یہاں کوئی اہل حدیثوں کا کوئی مدرسہ نہیں؟ مولانا نے کہا کہ یہاں تو کوئی نہیں، لیکن شہر میں دو ہمارے بڑے مدرسے ہیں ایک جامعہ محمدیہ اور دوسرا جامعہ اسلامیہ۔
واپس گاؤں آئے تو والد تبلیغی جماعت میں گئے تھے۔ میٹرک کا رزلٹ آنے سے پہلے آپ نے کپڑے سلائی کرنے کا ہنر سیکھ لیا تھا۔ تبلیغی جماعت میں والد کے ساتھ ایک زبیر نامی آدمی بھی گیا تھا، گوجرانوالہ شہر میں دیگاں والا بازار میں جی ٹی ایس اڈے کی طرف داخل ہوں تو دائیں جانب دیوبندیوں کی مسجد آتی ہے اس کے سامنے اس کا گھر تھا۔ والد نے اس سے بات کی یہ سلائی کا کام جانتا ہے اور پڑھنے کا بڑا شوق رکھتا ہے ہمار ے گھریلوں حالات ٹھیک نہیں ہم چاہتے ہیں یہ پڑھے بھی اور کام بھی کرے۔ اس نے کہا میں بھی درزی ہوں اس کو میرے پاس بھیج دیں کام بھی کرے گا اور پڑھے گا بھی۔ والد کے کہنے پر اپنی مشین اٹھائی اور اس کے پاس چلے گئے۔ نوشہرہ ورکاں روڈ پر دیوبندیوں کا ایک مدرسہ جس کانام جامعہ احیاء العلوم تھا اس میں پڑھنے چلے گئے۔ وہاں کے طالبعلم شہید اسلام مولانا حبیب الرحمان یزدانی کے مداح تھے۔ ایک دن مسلم مسجد نوشہرہ ورکاں میں ایک جلسہ تھا جس سے یزدانی شہید نے خطاب کرناتھا۔ مدرسے کے لڑکوں نے کہا یزدانی صاحب آرہے ہیں لہذا ان کا خطاب سننے جانا ہے۔ آپ نے کہا کیوں وہ تو اہل حدیث ہیں آپ دیوبندی؟ کہنے لگے کہ بالکل ایسا ہی لیکن یزدانی صاحب اپنی تقریر میں قرآن بہت پڑھتے ہیں اور توحید وسنت کھل کر بیان کرتے ہیں۔ یزدانی شہید کے خطاب نے آپ پر اثر کیا جس کی وجہ سے دیوبندیوں کے اس مدرسے کو بھی چھوڑکر گھر واپس آگیے۔ واپس آکر والد سے کہا کہ آپ مجھے کسی اہل حدیث مدرسے میں داخل کرادیں۔
اس وقت گجرات میں مولانا طارق محمود یزدانی کے چچا مولانا عبدالخالق جامعی اور مولانا عبدالواحد سلفی کے پاس بھیجا تاکہ وہ کسی مدرسے میں داخل کروادیں۔ مولانا عبدالواحد سلفی نے چوہدری یٰسین ظفر کے نام خط لکھ کردیا جس کو لے کر آپ جامعہ سلفیہ فیصل آباد چلے گیے۔
1986 ء میں جب آپ جامعہ سلفیہ پہنچے اس وقت ابھی مکمل مسلک اہل حدیث قبول نہیں کیا تھا تھوڑی زیادہ حنفیت باقی تھی۔ چند مسائل میں اہل حدیث مسلک کے موقف نے متاثر کیا جس کے بعد 1987 میں آپ نے باقاعدہ مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔
1987 میں علامہ احسان الہی ظہیر شہید ہوئے تو اس وقت آپ جامعہ سلفیہ میں زیرتعلیم تھے۔ جس رات دھماکہ ہوا آپ قریب ہی ایک گاؤں 30 چک میں موجود تھے۔ وہاں کا ایک لڑکا جامعہ سلفیہ میں آخری سال کا طالبعلم تھا۔ ایک روز آپ اپنے کپڑے سلائی کرنے لگے تو وہ آپ سے کہنے لگا کہ یہ کام مجھے بھی سکھا دیں جامعہ سے فراغت کے بعد میں اسے ذریعہ معاش بناؤں گا۔ آپ نے اسے یہ کام سکھانا شروع کردیا۔ ایک دن وہ کہنے لگا کہ میرے بھائی کی شادی ہے آپ ہمارے گاؤں چلیں کپڑے سلائی کرنے ہیں آپ چلے گیے رات کو کپڑے سلائی کررہے تھے اس کا بھائی آیا جو ٹرک ڈرائیور تھا کہنے لگا کہ آج شہر سے میں نے ایک خبر سنی ہے کہ اہل حدیثوں کے کسی جلسے میں ایک بم دھماکہ ہوا ہے جس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
یہاں آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ جامعہ سلفیہ میں آپ اپنے استاد شیخ الحدیث مولانا یونس بٹ رحمۃ اللہ علیہ کے کپڑے سلائی کرتے رہے ہیں۔ جب وفاق المدارس السلفیہ کا دفتر اسلام آباد سے جامعہ سلفیہ منتقل ہوا تو اس کے سارے پردے بھی آپ نے سلائی کیے تھے۔
دو سال آپ جامعہ سلفیہ میں رہے دسرے سال کے اختتام پر گاؤں آگیے وہاں پر بغیر تیاری کے ایف اے کا امتحان دیا اور پاس ہوگیے۔ ایف اے کے بعد آپ جامعہ اثریہ جہلم چلے گیے۔ چار سال جامعہ اثریہ کے اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔ اسی اثناء میں بی اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ جامعہ اثریہ میں آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے پڑھا اور جامعہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
1991 میں ایک سال باقی تھا گھرکی کچھ مجبوریوں کی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر گھر آگئے۔ ایک روز حافظ سیف اللہ منصور رحمۃ اللہ علیہ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ آپ کے گاؤں آئے۔ انہوں نے اپنے ساتھ لاہور جانے کا کہا وہاں جاکر دعوتی و تبلیغی کام کرنے کا کہا۔ آپ نے کہا میں والد کی اجازت کے بغیر نہیں جاؤں گا۔ ان دنوں آپ کے والد آرمی سے ریٹائر ہوکر گھر آگئے تھے اور لاہور میں مرکزی جمعیت اہل حدیث 106 راوی روڈ میں دفتری امور سر انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے آپ کے والد سے بات کی، انہوں جانے کی اجازت دے دی اور آپ لاہور چلے گئے۔ چیمبرلائن روڈ لاہور میں مرکزالدعوہ والارشاد کا دفتر تھا اس میں حافظ محمد سعید اور پروفیسر ظفراقبال سے ملاقات کروائی گئی۔ حافظ صاحب فرمانے لگے کہ کیا کام کرو گے؟ آپ نے عرض کیا جو حکم کریں گے وہی کروں گا۔ حافظ صاحب نے آپ کو فتاویٰ سیکشن میں فتوی نویسی پر مامور کردیا۔ وہاں پر صبح گیارہ بجے کے بعد کام شروع ہوتا تھا اس سے پہلے آپ کے پاس فارغ وقت تھا آپ نے سوچا کہ میرا ایک سال باقی ہے کیوں نہ اسے بھی مکمل کیا جائے۔ چنانچہ آپ چینانوالی مسجد میں چلے گیے وہاں شیخ الحدیث مفتی عبیداللہ عفیف تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مفتی صاحب آٹھ بجے سے نو بجے تک بخاری شریف پڑھاتے تھے اسی دوران ان سے بخاری شریف پڑھی۔ مفتی صاحب آپ پر بڑی شفقت فرماتے تھے اور فتوی نویسی میں آپ کی راہنمائی بھی فرماتے تھے۔
1991 ء میں فتویٰ نویسی کا کام شروع کیا۔ فتاویٰ پر مشتمل کتب کی تعداد چھ ہے۔ جن میں آپ کے مسائل اور ان کا حل ضخیم کتاب بھی شامل ہے۔ یہ کتاب ہندوستان میں ہندی زبان میں چھپ چکی ہے۔ آپ کی تصنیفات وتالیفات کی تعداد اکتیس ہے۔ بے شمار کتب کے مقدمے اور تقریظات اس پر مستزاد ہیں۔
فن مناظرہ کے بھی شہسوار ہیں۔ نوعمری سے ہی مناظرانہ ذہن رکھتے تھے۔ اسی لیے زمانہ طالب علمی میں دوسرے مسالک کے علماء سے مختلف مسائل میں بحث و تمحیص کی۔ آپ کے دیوبندی استاد جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے آپ کے اہل حدیث ہونے پر خفا ہوگیے۔ اس زمانے میں آپ کے والد ملازمت کے سلسلے میں کوئٹہ میں ہوتے تھے۔ ایک دن تبلیغی جماعت کے شب جمعہ میں جارہے تھے ان کے ساتھ ایک حوالدار جو آپکے والد کے ماتحت تھا کہنے لگا کہ ہرجمعرات کو تبلیغی جماعت کے ساتھ جاتے ہیں آج ہمارا یعنی اہل حدیثوں کا جلسہ ہے آپ وہاں پر چلیں۔ آپ کے والد ان کے ساتھ اہل حدیثوں کے جلسے میں چلے گیے۔جلسہ سنا اور وہاں سے تین کیسٹیں لے کر آئے، جن میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، چوہدری عبدالحفیظ اور حافظ عبدالغفار مدنی حفظہ اللہ کے خطابات تھے۔ اس جلسے سے علامہ شہید اور حافظ عبدالغفار مدنی کے خطاب سن کر آپ کے والد بھی اہل حدیث ہوگیے۔ ایک دن آپ اپنے والد کے ہمراہ گاؤں کی مسجد میں نماز پڑھنے گئے جہاں آپ کے دیوبندی استاد امام تھے۔ نماز میں آپ نے بلند آواز میں آمین کہہ دی، نماز کے بعد وہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ آئندہ اگر کسی نے آمین کہی تو میں یہ کردوں گا وہ کردوں گا۔
ایک دفعہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا، آپ کے ایک سکول میں کلاس فیلو تھے مرزا امجد ان کا نام تھا آپ کی کوششوں سے وہ اہل حدیث ہوگئے۔ ان کو کہا کہ استادوں کی مسجد میں آپ اعتکاف بیٹھیں۔ لیکن اندر خانے کام دین کا کرنا ہے۔ اس نوجوان کے ساتھ ایک اور لڑکے کو تیار کیا جس کانام حافظ احسان الہی تھا۔ یہ دونوں اعتکاف کے لیے مسجد میں گئے تو آپ کے استاد نے ان دونوں کے بستر اٹھاکے باہر پھینک دئیے۔ گاؤں کے بزرگوں نے مداخلت کی کہ دس دنوں کے لیے بچے آئے ہیں ان کو بیٹھنے دیں اعتکاف۔ بہرحال وہ اعتکاف بیٹھ گئے تین دن گزرے تو ایک رات آپ نے سوچا کہ اپنے ان دوستوں کا پتہ تو کروں ان دنوں آپ جامعہ اثریہ جہلم میں پڑھتے تھے۔ آپ مسجد میں داخل ہوئے تو آٹھ دس لوگ مولانا کے اردگرد بیٹھے تھے آپ نے جاکر سلام کہا اور بیٹھ گئے آپ کے بیٹھتے ہی ایک دوست نے سوال کردیا کہ استاد جی تقلید کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ ہمارا مسلک تقلیدی مسلک نہیں ہے۔ آپ دیکھیں امام ابوحنیفہ ایک مسئلہ بیان کرتے ہیں تو امام ابویوسف ان کی مخالفت کرتے ہیں کرتے ہیں اگر تقلیدی مسلک ہوتا تو دوسرے امام فورا ان کی بات مان لیتے۔ ہاں اگر کسی ایک امام کی بات ان کی نسبت سے مان لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ آپ کے دوست نے کہا کہ استاد جی اس کی دلیل کیا ہے؟ کہنے لگے اس کی دلیل حدیث ہے ”اصحابی کالنجوم“۔
اتنی بات ہوئی تو آپ کے دوست نے آپ کو اشارہ کردیا کہ اب بات شروع ہوگئی ہے آپ سنبھالیں۔ آپ نے کہا استاد جی اگر آپ ناراض نہ ہوں ایک بات پوچھ لوں؟ کہنے لگے پوچھو! آپ نے کہا جو آپ نے حدیث بیان کی یہ کدھر ہے؟ کہنے لگے صحاح ستہ میں آپ نے کہا صحاح ستہ میں چھ کتابیں ہیں کسی ایک کتاب کا نام لیں کہنے لگے مشکوۃ شریف میں۔ آپ نے کہا استاد جی مشکوۃ صحاح ستہ میں شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشکوۃ میں صحاح ستہ کی حدیثیں شامل ہیں اور غصہ میں آگئے۔ کہنے لگے تم بتاؤ کہ یہ کہاں ہے آپ نے کہا استاد جی مشکوۃ میں صحاح ستہ کے حوالے سے یہ حدیث نہیں ہے۔ باتیں چل رہی تھیں کہ وہ غصہ میں کہنے لگے چپ کر بڑا محدث بنا پھرتا ہے ان بچوں کے اعتکاف کی برکت ہے ورنہ کب کی میری تیری ہاتھاپائی ہوچکی ہوتی۔ پاس بیٹھے بزرگوں نے کہا مولانا ان کی باتوں کا جواب دیں غصہ کیوں کرتے ہیں۔
آپ نے بریلوی، دیوبندی اور شیعہ مسلک کے علماء سے متعدد مناظرے کیے جن میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح سے ہمکنارکیا۔ طوالت کے باعث ان کی تفصیل یہاں بیان نہیں کی جارہی۔ سلسلہ تعارف علماء میں لکھے گیے مضامین کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا ارادہ ہے اگر اللہ نے توفیق دی اور زندگی نے وفا کی آپ کے اس مضمون میں ان کو شامل کردیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
آپ نے سبزہ زار لاہور میں ایک بہت بڑا دینی ادارہ مرکز الحسن کے نام سے بنایا ہے جس میں مختلف شعبہ جات میں کام جاری ہے۔ اس ادارے میں بہت بڑی لائبریری میں موجودہے۔ آپ کے بیٹے مولانا حسن ربانی اس ادارے کے انتظامی اور تعلیمی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ اپنی ساری کامیابی، عزت اور شہرت کو ماں کی دعاؤں کانتیجہ قرار دیتے ہیں۔
ہماری اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے دعا ہے کہ وہ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ تادیر قائم دائم رکھے تاکہ آپ مسلک اور کتاب وسنت کا علم بلند کیے رکھیں۔ آمین
یہ بھی پڑھیں: شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم
تحریر: صہیب یعقوب (بسلسلہ تعارف علماء)