سوال           (110)

اقعاء کی صورتیں واضح فرما دیں، کیا اقعاء صرف نماز میں ممنوع ہے؟

جواب

اقعاء کی مختلف صورتیں اور ان کے حکم سے متعلق قدرے اختلاف پایا جاتا ہے، البتہ بنیادی طور پر اس کی دو صورتیں بنتی ہیں جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں وضاحت کی ہے۔

دونوں قسموں کی تفصیل درج ذیل ہے:

(1)  :  دو سجدوں کے درمیان اقعاء کرنا سنت ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے اپنے پاؤں کو اس طرح کھڑا کرے جس طرح سجدہ کے حالت میں کیا جاتا ہے، اور پھر کولہوں کو اپنی ایڑیوں پر رکھ کر بیٹھ جائے، یہ مسنون عمل ہے، دو سجدوں کے درمیان کبھی کبھي اس سنت پر بھی عمل کرنا چاہیے۔

طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“قُلْنَا لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْإِقْعَاءِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، فَقَالَ: «هِيَ السُّنَّةُ»، فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّا لَنَرَاهُ جَفَاءً بِالرَّجُلِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ هِيَ سُنَّةُ نَبِيِّكَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”. [صحيح مسلم: 536]

ہم نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے اقعاء کی صورت دونوں پیروں پر بیٹھنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا: یہ سنت ہے۔ ہم نے ان سے عرض کی: ہمارا تو خیال ہے کہ یہ انسان کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں ، بلکہ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

(2)  :   اقعاء کی ایک دوسری صورت ہے جو کہ  حرام ہے، جس کا طریقہ یہ ہے:

کولہوں کے بل زمین پر بیٹھ کر ٹانگیں سیدھی کرلینا اور اپنے ہاتھ کو زمین پر رکھنا، جیسے کتا بیٹھتا ہے۔اقعاء کی یہ صورت جائز نہیں ہے۔ کئی ایک احادیث میں اس سے متعلق ممانعت وارد ہوئی ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عُقْبَةِ الشَّيْطَانِ. وَيَنْهَى أَنْ يَفْتَرِشَ الرَّجُلُ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ السَّبُعِ”. [صحيح مسلم: 498]

“الله کے رسول شیطان کی طرح (دونوں پنڈلیاں کھڑی کر کے) پچھلے حصے پر بیٹھنے سے منع فرماتے اور اس سے بھی منع فرماتے کہ انسان اپنے بازو اس طرح بچھا دے جس طرح درندہ بچھاتا ہے”۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے تین چیزوں سے منع فرمایا، ان میں سے ایک کتے کی طرح بیٹھنا بھی تھا۔

“وَنَهَانِي عَنْ…إِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ…”. [مسند أحمد:8106، صحيح الترغيب والترهيب:555]

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ