تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کے کچھ علمی مسائل ہیں اور کچھ عملی مسائل بھی ہیں۔ علمی مسئلہ یہ ہے کہ اقامت دین کے تصور کو صرف اقامت ریاست تک محدود کرنے کی ذہنیت نے اس تحریک کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اقامت دین سے مراد اداروں کا قیام بھی ہے، صحیح عقائد کا قیام بھی، اور صحیح سوچ اور فکر کا قیام بھی ہے۔ اقامت دین میں اقامت الصلوۃ بھی ہے جس کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے اور اقامت صلوۃ کے بغیر دین کا تصور کیا ہی نہیں جا سکتا۔
اسی طرح اقامت دین میں اقامتِ وزن بھی شامل ہے

(وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ)

اقامت دین میں سماجی، سیاسی اور معاشی عدل کا قیام بھی ہے۔

(أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ)

اور انصاف میں سب سے اہم چیز اقامت توحید ہے کیونکہ سب سے بڑا ظلم شرک ہے اور سب سے بڑی سچائی اور سب سے بڑی عدل و انصاف کی بات توحید ہے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ

(عدل سے مراد توحید بھی ہے، احسان سے مراد والدین کے ساتھ حسن سلوک بھی ہے اور وایتا ء ذالقربی میں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام بھی ہے)
لہذا اقامت دین کے تصور میں ایک صحیح عقیدہ اور ایک صحیح عقیدہ کے ماتحت خاندانی نظام اور اس کی تشکیل بھی ہے جس میں والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی ہے۔
اور پھر خاندانی نظام کا استحکام بھی شامل ہے اور اس کے لیے قرآن مجید میں اقامتِ حدود اللہ کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے ۔
لہٰذا جب تک اقامت دین کا یہ جامع تصور ہماری تحریک کے افراد میں علمی طور پر راسخ نہیں ہو جاتا اور بالخصوص اس کی ہر سطح کی امامت اور قیادت کے درمیان راسخ نہیں ہو جاتا تو نچلی سطح پر کارکنان کی ذہنی و فکری تربیت ممکن نہیں ہے
دوسری اہم بات، کہ ہم جو توحید کا تصور پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی خالق بھی ہے اور مالک بھی، الہ بھی ہے اور رب بھی، معبود بھی ہے اور طاقتور بھی، قدیر بھی ہے، مکمل علم اور قدرت رکھتا ہے اور شارع بھی ہے اور حاکم بھی۔ تو اس سب میں ایک اللہ تعالی سے محبت کا جو تعلق ہے، وہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور جب ایک ایسی قیادت، امامت پیدا ہوتی ہے جس میں اللہ سے تعلق میں کمی پائی جاتی ہے، انکی فکر ، عمل اور سوچ میں ۔ تو یہ چیز پھر نچلی سطح پر کارکنان میں منتقل ہوتی ہے

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ

اہل ایمان تو اللہ تعالی کی محبت میں شدید ہوتے ہیں
اسی طرح وہ شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت نہ کرے حتی کہ اپنے والدین اور اپنی اولاد سے بھی۔
جب یہ پہلو ہماری قیادت کے علمی و فکری سطح پر کمزور ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں روحانیت کی کمی محسوس کی جاتی ہے اور اس سے پوری تحریک کے اندر ایک موت کا سا سماں بن جاتا ہے اور یہی چیز پھر نیچے منتقل ہوتی ہے
تو یہ نبوی روحانیت بھی اقامت دین کا ایک حصہ ہے جسے ہم تعلق باللہ ، تزکیہ، احسان، زہد سے تعبیر کرتے ہیں ۔
اب اسکا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و اتباع، اور یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثر سنت کا استخفاف ہوتا ہے، سنت کی تحقیر ہوتی ہے، سنت کو وہ درجہ ہماری عقل نہیں دے پاتی جو فی الواقع اس کا ہے اور پھر اس کے اثرات بھی تحریک پر پڑتے ہیں ۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ اقامت دین میں توحید کے نظام کی بھی اہمیت ہے، مسجد کے نظام کی بھی ، اللہ اور رسول سے محبت کی بھی اہمیت ہے، خاندانی نظام کے استحکام کی بھی ضرورت ہے اور پھر ایک سیاسی اور معاشی عادلانہ نظام کی بھی ضرورت ہے تو بات ایک منطقی ترتیب سے آگے بڑھتی ہے, اور اداروں کے استحکام کی بھی اہمیت ہے اور سب سے اہم ادارہ جو اسلام قائم کرتا ہے وہ مسجد کا ادارہ ہے، تحریک اسلامی سے وابستہ افراد چاہے وہ شمالی امریکہ میں ہی کیوں نہ ہوں وہ مساجد کے قیام پر فوکس کریں اور اس وقت مساجد جس طرح مولویوں کے ہاتھ میں پہنچ رہی ہیں اور جس طرح وہاں پر روایتی سرگرمیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح دنیا پرستی، مادیت اپنا اثر دکھا رہی ہے تو اس سے مساجد کو پاک کرنا بہت ضروری ہے۔ جماعت اور تحریک سے وابستہ افراد کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ نئی مساجد قائم کریں اور مسجد کےادارے کو ایک دعوتی ادارہ بنائیں اور وہاں پر عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا ایک مستقل نظام ہو اور پیسہ ایک ثانوی چیز ہو تو یہ مسجد کا ادارہ ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کی طرف ہم توجہ نہیں کرتے۔
دوسری اہم بات جو تحریک سے وابستہ افراد کے بارے میں دیکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ یہ اپنے خاندان کے بارے میں زیادہ متفکر نہیں ہوتے اور
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
تو وہ معاملہ بھی ہمارے ہاں نظر آتا ہے
اب ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارا دعوتی مزاج بہت ہی سرد پڑ گیا ہے اور یہ دعوتی مزاج ، تبلیغی رویہ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بھی نہیں رکھتے، کہ علم سیکھنا بھی ہے اور سکھانا بھی، خود بدلنا ہے اور دوسروں کو بدلنا بھی ہے اور اپنے اطراف اپنے علم اور عمل کے ذریعے ایک حلقہ تعمیر کرنا ہے، اس پر ہماری توجہ بہت کم ہو گئی ہے اور ہمارا زیادہ وقت عملی طور پر تنظیم و تنظیم سازی پر گزرتا ہے اور دعوت کا جو فکری و نبوی منہج ہے اس سے انحراف کی راہیں پیدا ہو رہی ہیں ۔
پھر ہم یہ اچھی طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ دین کی بنیاد “لا الہ الا اللہ” سے شروع ہوتی ہے ، اور عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عقیدہ آخرت ۔ اس کی مضبوطی کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی ۔ اب وہ مشہور احادیث بخاری و مسلم میں آئی ہیں کہ ایک بدو نے پوچھا کہ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر نہیں بھیجا ؟ آپ نے فرمایا “بھیجا ہے” تو اس نے کہا کہ کیا اللہ نے پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے؟ آپ ص نے فرمایا “ہاں” پھر فرمایا کہ کیا اللہ نے زکوۃ فرض کی ہے ؟ آپ نے فرمایا “ہاں” پھر پوچھا کیا میرے اوپر اس کے علاوہ بھی نمازیں اور زکوۃ ہے؟ آپ نےفرمایا “نہیں” تو اس نے کہا کہ میں نہ تو اس میں اضافہ کروں گا اور نہ کمی ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ سچا ہے یعنی اس نے ایسا ہی کیا تو پھر یہ جنتی ہے ، جس نے جنتی کو دیکھنا ہو تو اس شخص کو دیکھ لے ۔ اس سے جو بات ہمارے سامنے آتی ہے وہ فرد کا نصاب ہے ۔ اور ترجیحات ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ترجیحات میں پہلے عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت، عقیدہ آخرت اس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ عقیدہ جب کھوکھلا ہو گا تو دین کی عمارت کھڑی نہیں کی جا سکتی۔ اور اس کے بعد وہ بنیادیں (ارکان اسلام) ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ پر ہے جس میں سب سے پہلے نماز ہے، اعمال میں سب سے پہلے نماز کا قیام ہے۔
یہ احادیث جو بدویوں سے متعلق ہیں یہ فرد کا کم سے کم نصاب ہے، یہ قیادت کا نصاب نہیں ہے ۔ یہ حضرت ابو بکر رض کا نصاب نہیں تھا، یہ حضرت عمر رض کا نصاب نہیں تھا، یہ عشرہ مبشرہ کا نصاب نہیں تھا ۔ لہٰذا ایک نصاب قیادت ہوتا ہے جس کو آپ فقہ کی اصطلاح میں فرض کفایہ کہتے ہیں تو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
مولانا مودودی رح نے زیادہ تر باتیں جو اقامت دین کے حوالے سے کہی ہیں اس سے مراد قیادت کا نصاب ہے اور وہ یہ بات بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول نے جو بھی ہمیں حکم دیا ہے وہ ممکن العمل ہے، یہ فرضی باتیں نہیں ہیں۔ یہ نہیں سمجھنا چائیے کہ یہ باتیں اس دنیا میں اب نہیں ہو سکتیں یا نا ممکن العمل ہیں ۔ مولانا مودودی کا قرآن و سنت پر کامل اعتماد تھا جس کے لیے وہ بھولا ہوا سبق یاد دلاتے تھے جس کو ہمارے حکمرانوں نے بھی فراموش کر دیا اور ہمارے اہل تصوف نے بھی اور وہ دین کے جزوی تصور پر قانع ہو گئے ہیں ۔
تو ایک فرد کی ابتدائی ضرورت کیا ہے اور ایک فرد کی کامیابی کے لیے ضامن چیزیں کیا ہیں اور فرد کا کم سے کم علمی و عملی نصاب کیا ہے، یہ بالکل اور چیز ہے اور ایک تحریک اور قیادت کا نصاب کیا ہے یا کیا ہونا چائیے یہ مختلف چیز ہے۔
جہاں تک اسلامی تحریک کی قیادت کے نصاب کا تعلق ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پورا قرآن، پوری وحی، تمام صحیح احادیث تحریک اسلامی کی قیادت کا نصاب ہے ۔تحریک اسلامی کے اندر ایسی قیادت کا ہونا ضروری ہے جو عربی زبان سے دلچسپی رکھتی ہو اور قرآن کا گہرا مطالعہ کرے ، احادیث کی بنیادی کتابیں جو ہیں ان کو چاٹ لے ، صحیح اور ضعیف کی معرفت حاصل کرے اور علم پر عبور ہو ۔ یہ قیادت کا نصاب ہے ۔ قیادت اگر مضبوط ہوتی ہے علمی، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے، تعلق باللہ اور اتباع رسول کے اعتبار سے تو تحریکوں میں بھی جان پڑتی ہے، معاشرے میں بھی جان پڑتی ہے اور قومیں اور عوام بھی ایمان کی بہار کا نظارہ دیکھتی ہیں ۔
حاصل کلام:
صحیح ترتیب کو پیش نظر رکھا جائے
عقائد (عقیدہ توحید، رسالت، آخرت)
قیامِ صلوۃ ۔ نماز اللہ تعالی سے تعلق، ہم کلامی اور اس کے ذکر کا نام ہے۔
ہم اپنے آپ، اپنے نفس، اپنے بیوی بچوں، اپنے خاندان پر زیادہ توجہ دیں
ہمارا مزاج علمی ہو اور دعوتی ہو
اور اسی ترتیب سے ہم اداروں کے قیام کے لیے کوشش کرتے رہیں (مسجد کا ادارہ، خاندان کا ادارہ، تعلیم گاہیں، کالجز، یونیورسٹیز، معاشی ادارے یہ سب قرآن و سنت کے صحیح علم اور کامل علم کی بنیاد پر اٹھائے جائیں ۔
یہ ہے اقامت دین کا تصور یہاں تک کہ ایک ریاست قائم ہو جائے جو عدل و انصاف کی ضامن ہو اور اللہ تعالی کی توحید کی مظہر ہو اور دنیا کے سامنے ایک گواہی پیش کر سکے کہ یہ ہے توحید کا عملی مظہر اور یہ توحید کا ایک کامل تصور ہے کہ اللہ خالق بھی ہے ، رب بھی، الہ بھی ہے ، معبود بھی، اسی سے دعائیں مانگی جاتی ہیں اسی کے سامنے گڑگڑایا جاتا ہے، اسی سے محبت کی جاتی ہے۔ اور وہ حاکم بھی ہے ، شارع بھی ، law giver بھی ہے اور اسی کے نتیجے میں پھر ہم اپنی شخصیت کو ہمہ جہتی بناتے ہیں اور یہ چیز پھر پوری سوسائٹی میں بتدریج منتقل ہوتی ہے ۔ ہمارا سارا مسلہ ہماری قیادت کا ہے ، اللہ تعالی ہمیں اچھی قیادت نصیب فرمائے جو علمی، فکری، روحانی مسلح ہو، مالامال ہو اور اس کے اندر بے پناہ داعیانہ مزاج پایا جاتا ہو اور جب ایسی قیادت پیدا ہوتی ہے تو اسلامی تحریک کو آگے بڑھنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
اللہ اعلم بالصواب

 راشد مشتاق