سوال (2191)
اقامت کے بعد امام کا یا لوگوں کا “اقامھا اللہ وادامھا” کے الفاظ پڑھنا کیسا عمل ہے؟
جواب
یہ الفاظ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں، جو روایات ملتی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم
[دیکھیے مجموع فتاوی ابن باز 365/10، تمام المنہ البانی، شعیب الارنووط تخریج زاد المعاد 359 /2]
فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ
یہ کلمات کہنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں، نہ ہی یہ کلمات کہنا تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ثابت ہیں، اور اس بارے جو ایک روایت ہے وہ سندا ضعیف ہے۔
مختصر تخریج:
[سنن ابو داود : 528 ، الدعاء للطبراني :491 ،عمل اليوم والليلة لابن السني: 104 ،الدعوات الكبير للبيهقي: 71 ،السنن الكبرى للبيهقي: 1940]
اس روایت کے بارے محدثین کا موقف:
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا:
ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ ﻭاﻟﺰﻳﺎﺩﺓ ﻓﻴﻪ ﻻ ﺃﺻﻞ ﻟﻬﺎ
[التلخيص الحبير: 1/ 520]
اور کہا:
ﺃﺧﺮﺟﻪ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻭﺳﻜﺖ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻓﻰ ﺳﻨﺪﻩ اﻟﺮاﻭﻯ اﻟﻤﺒﻬﻢ ﻭﻓﻰ ﺷﻬﺮ ﺑﻦ ﺣﻮﺷﺐ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻜﻦ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺣﺴﻦ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺨﺎﻟﻒ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ اﻟﻤﺬﻛﻮﺭ ﻫﻮ اﻟﻌﺒﺪﻯ ﻓﻴﻪ ﻣﻘﺎﻝ ﺃﻳﻀﺎ ﻭﻗﺪ ﺭﻭاﻩ ﻭﻛﻴﻊ ﻋﻨﻪ ﻓﻠﻢ ﻳﺬﻛﺮ ﻓﻰ اﻟﺴﻨﺪ ﺷﻬﺮ ﺑﻦ ﺣﻮﺷﺐ [نتائج الأفكار: 1/ 371]
اور امام وکیع بن جراح کے طریق سے یہ روایت الدعاء للطبرانی میں ہے اور اس میں شھر بن حوشب کا ذکر نہیں ہے۔
حافظ نووی نے کہا:
ﻓﻬﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﺿﻌﻴﻒ ﻷﻥ اﻟﺮﺟﻞ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ اﻟﻌﺒﺪﻱ ﺿﻌﻴﻒ ﺑﺎﻻﺗﻔﺎﻕ ﻭﺷﻬﺮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻓﻲ ﻋﺪاﻟﺘﻪ
[المجموع شرح المهذب: 3/ 122]
اور دوسری جگہ کہا:
ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ ﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﺑﺈﺳﻨﺎﺩ ﺿﻌﻴﻒ ﺟﺪا
[المجموع شرح المهذب: 3/ 253]
اس سند میں محمد بن ثابت العبدی راوی علی الراجح ضعیف ہے اور اس پر امام یحیی بن معین کی جرح ہی راجح ہے ، اور اس کی توثیق سے خود امام یحیی بن معین نے انکار کیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
امام عباس الدوری نے کہا:
ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﻳﻘﻮﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ اﻟﺬﻱ ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻋﻦ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﺘﻴﻤﻢ ﺑﺼﺮﻱ ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ ﻗﻠﺖ ( یعنی امام عباس الدوری نے کہا) ﻟﻴﺤﻴﻰ ﺃﻟﻴﺲ ﻗﻠﺖ ﻣﺮﺓ ﻟﻴﺲ ﺑﻪ ﺑﺄﺱ ﻗﺎﻝ ﻣﺎ ﻗﻠﺖ ﻫﺬا ﻗﻂ [تاريخ ابن معين رواية الدوري : 4537]
اور کہا:
ﻟﻴﺴﺎ ﺑﺸﻲء
[تاريخ ابن معين رواية الدوري: 3422، 3976]
امام یحیی بن معین کے دوسرے شاگرد عثمان الدارمی نے ليس به بأس کہنا نقل کر رکھا ہے۔
[تاريخ ابن معين رواية الدارمى: 809، اور دیکھیے الضعفاء الکبیر للعقیلی: 1586]
اور کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﺬاﻟﻚ اﻟﻘﻮﻱ ﺣﺪﺙ ﺑﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻓﻲ اﻟﺘﻤﻴﻢ
[تاريخ ابن معين رواية ابن محرز: 1/ 72]
امام یحیی بن معین نے جو کیا بہ بأس کہنے کی نفی کی ہے کہ میں نے کبھی اسے ایسا نہیں کہا تو یہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ یہ راوی ان کے نزدیک ثقہ و قابل احتجاج نہیں ہے یا ممکن ہے اس سے رجوع کر لیا ہو یا یہ کوئی دوسرا راوی ہو جسے لیس به بأس کہا ہو یا ان کے تلمیذ کو سننے میں چوک و خطاء لگی ہو جیسے عباس الدوری کو لگا تو وضاحت کے ساتھ پوچھنے پر امام یحیی بن معین نے واضح کر دیا کہ میں نے اسے کبھی ليس به بأس نہیں کہا ہے ۔
امام ابو حاتم الرازی نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﺑﺎﻟﻤﺘﻴﻦ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ
[الجرح والتعديل :7/ 216]
امام نسائی نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻘﻮﻱ
[الضعفاء والمتروكون : 519]
امام ابن حبان نے کہا:
ﻭﺃﻣﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﻓﺈﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻓﻊ اﻟﻤﺮاﺳﻴﻞ ﻭﻳﺴﻨﺪ اﻟﻤﻮﻗﻮﻓﺎﺕ ﺗﻮﻫﻤﺎ ﻣﻦ ﺳﻮء ﺣﻔﻈﻪ ﻓﻠﻤﺎ ﻓﺤﺶ ﺫﻟﻚ ﻣﻨﻪ ﺑﻄﻞ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ [المجروحين لابن حبان: 2/ 251]
امام علی بن المدینی نے کہا:
ﻫﻮ ﺻﺎﻟﺢ ﻟﻴﺲ ﺑﺎﻟﻘﻮﻱ
[سؤالات ابن أبي شيبة: 35]
امام ابن عدی نے کہا:
ﻭﻋﺎﻣﺔ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ، ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻪ
[الکامل لابن عدی: 7/ 313]
تو یہ راوی علی الراجح ضعیف ہے اور اس کی روایات پر کسی ثقہ راوی نے اغلب متابعت نہیں کی جس سے اس کا ضعف و ناقابل احتجاج ہونا واضح ہو جاتا ہے۔
شھر بن حوشب راوی علی الراجح صدوق ہیں لیکن احکام میں ان کا تفرد قرائن کے ساتھ قبول ورد کیا جاتا ہے۔
الحاصل:
یہ أقامها الله وأدامها کے الفاظ کہنا ہرگز ثابت نہیں ہے ، ہمارے علم کے مطابق نہ اس کا کوئی معتبر و صحیح شاہد و متابع موجود ہے، نہ ہی اس پر عمل خیر القرون وبعد کے ادوار میں ہونا معلوم و معروف ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ