سوال (1633)

کیا اقامت کہتے وقت بھی اذان کی طرح کانوں پر ہاتھ رکھے جا سکتے ہیں ؟

جواب

نہیں ، اس کی ضرورت نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

اگر ایسا کچھ ہوتا تو احادیث مبارکہ میں ذکر ہوتا ، ہمارے علم کے مطابق اقامت کے وقت کانوں میں انگلی ڈالنے کی کوئی روایت موجود نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اذان کے لیے کانوں میں انگلی دینا بھی کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ، البتہ علماء کہتے ہیں کہ کانوں میں انگلی دینا آواز کو اونچی رکھنے کے لیے اور اسی طرح کسی نہ سننے والے آدمی کو متنبہ کرنے کے لیے کہ فلاں آدمی کھڑا اذان دے رہا ہے ، اور بھی بعض مقاصد ہو سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اقامت میں بہرحال وہ چیزیں مطلوب نہیں ہوتی جو اذان میں ملحوظ رکھی جاتی ہے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اذان کہتے ہوئے کانوں میں انگلیاں رکھنا مستحب عمل ہے ، امام ترمذی نے باقاعدہ اس پر تبویب قائم کی ہے۔
“أَبْوَابُ الْأَذَانِ
بَابٌ : إِدْخَالُ الْإِصْبَعِ فِي الْأُذُنِ عِنْدَ الْأَذَانِ”
اور پھر اس کے تحت حدیث لائے ہیں جس میں ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے وقت اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں داخل کیا۔ [سنن الترمذی: 197]
ظاہر ہے سیدنا بلال رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیمات کے بغیر تو ایسے نہیں کیا ہے ۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

یہ حدیث معلول ہے اور یہ اضافہ کہ کانوں میں انگلیاں دیتے اسی طرح پورے جسد کے ساتھ اذان میں گھومنا یہ دو اضافے اس حدیث میں منکر ہیں ۔
عبد الرزاق عن سفیان کے طریق سے اس حدیث کی اصل بخاری و مسلم میں ہے ۔
علت کے بیان اور تفصیل کے لیے دیکھیں “الاحاديث المعللة في الاذان والاقامه للطريفي”
امام بخاری رحمہ اللہ کی طرز سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کو معلول سمجھتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے یہ حدیث صیغہ تمریض کے ساتھ ذکر کی ہے اور اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا عمل ذکر کیا ہے ، صیغہ جزم کے ساتھ جس میں ذکر ہے کہ وہ اذان میں کانوں میں انگلیاں نہیں رکھتے تھے ، اسی طرح اس حدیث میں یہ اضافہ امام مسلم رحمہ اللہ نے ذکر نہیں کیا اور علل پر نگاہ رکھنے والے علماء یہ بحث کرتے ہیں کہ امام مسلم کی صناعت حدیثی سے ہے کہ جب وہ کسی حدیث کی اصل ذکر کریں اور اضافہ ذکر نہ کریں تو اغلب طور پر وہ ان کے نزدیک شاذ و منکر ہوتا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں!

حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُدْخِلَ الْمُؤَذِّنُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فِي الْأَذَانِ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ : وَفِي الْإِقَامَةِ أَيْضًا يُدْخِلُ إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ. وَأَبُو جُحَيْفَةَ اسْمُهُ وَهْبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السُّوَائِيُّ.

غالبا امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی اصل کو حسن صحیح قرار دیا ہے اور اقامت کے وقت کانوں میں انگلیاں دینا جن علماء کا مذھب ہے وہ بھی ذکر کر دیا ہے ، بعض دفعہ امام ترمذی رحمہ اللہ آئمہ فقہاء کے عمل کی وجہ سے بھی حدیث کو حسن صحیح قرار دیتے ہیں واللہ اعلم
“اس باب میں اور بھی احادیث ہیں ان کی تفصیل بھی مذکورہ بالا کتاب میں دیکھی جائے”
اسی لیے میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ کسی حدیث سے ثابت نہیں کہا تھا کہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہے ، البتہ بعض سلف سے یہ عمل آیا ہے اور صحابہ اور تابعین میں سے کسی کا قول عدم مشروعیت پہ نہیں ملتا ہے ۔
سعودیہ میں بہت سی مساجد میں دیکھا عرب مؤذنین کانوں میں انگلیاں رکھے بغیر اذان دے رہے ہوتے ہیں اس لیے یہ کہنا کہ اس پر تواتر سے امت کا عمل ہے صحیح نہیں۔
البتہ الامر فيه واسع

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ